چترالی کاشتکاروں نے منشیات اگانے کی ٹھان لی، اصل وجہ کیا ہے؟

جمعرات 24 اکتوبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خیبر پختونخوا کے دور افتادہ اور پسماندہ ضلعے اپر چترال میں مقامی باشندوں نے سڑکوں کی خراب حالت کی جانب حکومت کی عدم توجہی پر اجتماعی طور پر پوست کی کاشت دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کردیا۔ چترال میں پوست کی کاشت کا سلسلہ سنہ 90 کی دہائی میں حکومت کے ساتھ بہتر سہولیات کی فراہمی کے باقاعدہ معاہدے کے بعد بند کردی گئی تھی۔

اجتماعی طور پر پوست کی کاشت دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ عوامی اجتماع میں متفقہ طور پر کیا گیا جو مستوج واخان کوریڈور کے حوالے سے اپر چترال بریپ میں منعقد ہوا۔ اجتماع میں تمام علاقوں کے نمائندوں اور مقامی افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور پوست کاشت کرنے کے فیصلے کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ علاوہ ازیں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ کسی قسم کی پولیس کارروائی یا چھاپے کی صورت میں سخت عوامی ردعمل دیا جائے گا۔

مطالبہ صرف ایک سڑک

مستوج بروغل روڈ تحریک کے سربراہ اور سماجی و سیاسی رہنما پیر مختار علی شاہ ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کافی عرصے سے روڈ کی دوبارہ تعمیر کے حوالے سے حکمرانوں سے درخواست کی جا رہی ہے لیکن متعدد یقین دہانیوں کے باوجود اس حوالے سے کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: قلعہ عبداللہ : پوست کی کاشت اور منشیات کی اسمگلنگ کیخلاف جرگے کا انعقاد

مختار علی شاہ ایڈووکیٹ نے بتایا کہ اب باقاعدہ طور پر عوامی تحریک کا آغاز ہوچکا ہے اور عوام نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اپنے مطالبے کی منظوری کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ مستوج سے بروغل تک سڑک کی حالت انتہائی خراب ہے اور راستہ تنگ اور پتھریلا ہونے کے سبب آئے روز حادثات رونما ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چند ماہ پہلے ہی اس سڑک پر بریپ کے قریب گاڑی کے حادثے میں 5 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔

سڑک نہ ملی تو چرس اگائیں گے

عوامی جلسے میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر حکومت یہ واحد مطالبہ منظور نہیں کرتی تو پھر اپر چترال میں اجتماعی طور پر چرس (پوست) کی کاشت شروع کردی جائے گی۔

مقامی رہنما عزیر احمد نے بتایا کہ یہ فیصلہ انتہائی مجبوری کی صورت میں کیا گیا ہے جس کا مقصد مقامی افراد کی زندگیوں کو بہتر بنانا ہے۔

مزید پڑھیے: صوابی میں 150ایکڑ اراضی پر کاشت پوست کی فصل تلف کر دی گئی

انہوں نے بتایا کہ مستوج سے بروغل واخان کوریڈور تک روڈ کی حالت انتہائی خراب ہے اور اس جدید دور میں بھی عوام ایک تارکول روڈ سے محروم اور منٹوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے کرنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اپر چترال میں سیب کی پیداوار سب سے زیادہ ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس مرتبہ صرف ایک کروڑ روپے کے سیب فروخت ہوئے جبکہ 3 کروڑ روپے کے محض اس لیے ضائع ہوگئے کہ مال کی ترسیل کے لیے بہتر روڈ رسائی حاصل نہیں تھی۔

عزیر احمد نے کہا کہ ’جب سیب و دیگر پھل اور فصلوں سے فائدہ نہیں ہو رہا تو ہم اب مجبور ہوکر چرس کاشت کریں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ چترال میں چرس جسے مقامی کھوار زبان میں بونگ کہا جاتا ہے کو cash crop کہتے ہیں اور قدیم دور سے سنہ 90 کی دہائی تک چرس سے ہی ضروریات پوری ہوا کرتی تھیں جو اب ہم دوبارہ شروع کرنے جارہے ہیں۔

ماہر تعلیم شیر ولی خان اسیر نے بتایا کہ حکومت ان کے ساتھ ایک بری سوتیلی ماں کا سلوک کر رہی ہے اور دورافتادہ علاقوں پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔

مزید پڑھیں: بلوچستان میں افیون کی غیرقانونی کاشت کیسے ہورہی ہے؟

انہوں نے کہا کہ ’میری عمر 70 سال ہوچکی ہے لیکن اس دوران میں نے علاقے میں ترقیاتی کاموں کے لحاظ سے کوئی تبدیلی نہیں دیکھی اور نہ ہی کوئی روڈ و بجلی وغیرہ کے منصوبے ملے‘۔

چرس کی کاشت کب شروع ہوگی؟

عوامی جلسے میں اجتماعی طور پر اگلے سیزن سے چرس کاشت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور یہ بھی طے کیا گیا کہ کسی کے خلاف کارروائی کا اجتماعی طور پر سامنا کیا جائے گا۔

مقامی رہنما میر رحیم نے بتایا کہ اس وقت چترال میں سردی آچکی ہے اور پوست کی کاشت کا سیزن اپریل سے شروع ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح ہم اپریل سے باقاعدہ چرس کاشت شروع کردیں گے اور اسے فروخت کرکے اپنی ضروریات پوری کریں گے کیونکہ حکومت ہمارے لیے کچھ نہیں کر رہی۔

یونین کونسل کھوژ کے رکن احمد محمد علی کے مطابق ریاست ان کے مطالبے پر غور نہیں کر رہی اس لیے مجبور ہو کر سب نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اپنے آباؤاجداد کے نقش قدم پر چلیں اور چترال میں چرس کی کاشت دوبارہ شروع کردیں۔

یہ بھی پڑھیے: طالبان کی پابندی کے بعد افغانستان میں پوست کی پیداوار میں 95 فیصد کمی

انہوں نے کہا کہ اپر چترال سیاحت کے لیے بہترین مقام ہے لیکن روڈ خراب ہونے کے وجہ سے سیاح نہیں آ رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ واخان کوریڈور پر سڑک سے دیگر ممالک سے بھی کاروبار کے مواقع پیدا ہوں گے اور مقامی آبادی اور حکومت کا فائدہ ہو گا۔

چرس، چترال اور معیشت

عزیز احمد کے مطابق چترال چرس کی پیدوار کے لیے بیحد مشہور ہے۔ انہوں نے کہا کہ چترال میں سنہ 90 تک لوگ چرس کاشت کرتے تھے اور کوئی پابندی نہیں تھی۔

انہوں نے بتایا کہ چترال میں چرس کی کاشت کو سنہ 1938 میں اس کے شاہی حکمرانوں نے متعارف کرائی تھی اور باقاعدہ اس پر ٹیکس بھی وصول کرتے تھے اور پاکستان بننے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ قدیم زمانے میں چترال میں لوگ اپنی معیشت کے لیے چرس پر انحصار کرتے تھے اور اسے سوات، دیر اور دیگر علاقوں میں لے جا کر فروخت کیا کرتے تھے۔

پوست کی کاشت ترک کرنے کے بدلے بجلی اور بہتر سہولیات کا وعدہ

عزیز احمد بتاتے ہیں کہ سال 1986 میں حکومت چترال میں پوست کی کاشت کے خلاف سرگرم ہو گئی تو لوگوں نے مخالفت کی اور سڑکوں پر نکل آئے اور عوامی اتحاد بنا کر کارروائیوں کے خلاف مزاحمت شروع کی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت عوامی اتحاد نے حکومت کو کسی کے خلاف کارروائی کرنے نہیں دی اور پھر پوست کی کاشت ترک کرنے کی صورت میں حکومت نے سہولیات دینے کا وعدہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: افیون کی کاشت میں کس ملک نے افغانستان کو پیچھے چھوڑ دیا؟

عزیز احمد کا کہنا تھا کہ بریپ میں اس وقت عوامی جلسہ ہوا جس میں اس وقت کے اراکین نے شرکت کی اور حکومت نے چرس کے بدلے چترال کو بجلی اور بہتر انفراسٹرکچر دینے کا وعدہ کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چترال میں بڑی تعداد میں اسماعیلی برداری آباد ہے جس کی وجہ سے سابق صدر ضیاالحق نے چرس کے کاشت کو ختم کرنے کے لیے اسماعیلوں کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان کی مدد لی اور انہوں نے اس وقت چرس کاشت کرنے کے خلاف فرمان جاری کیا جس پر عمل درآمد ہوا۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی وعدے کے مطابق ریشن کے مقام پر پن بجلی پروجیکٹ تعمیر ہوا لیکن اب تک 90 فیصد آبادی کو اس وعدے کے مطابق بجلی فراہم نہیں کی گئی ہے جبکہ باقی سہولیات کی فراہمی پر بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

مزید پڑھیے: قلعہ عبداللہ میں افیون کی کاشت کے خلاف گرینڈ آپریشن، علاقہ میدان جنگ میں تبدیل

عزیز احمد کے مطابق چرس کاشت کرکے روڈ تعمیر نہیں کر سکتے البتہ خراب روڈ کی وجہ سے مشکلات سے دوچار مقامی افراد کو معاشی طور پر فائدہ ضرور ہو گا۔

اپر چترال کے باشندوں نے اگلے سیزن سے پوست کی کاشت شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم حکومت کا اس حوالے سے اب تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp