آزاد کشمیر میں وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت کے قیام کے فوری بعد سرکاری اسپتالوں کے لیے انڈس موٹرز کے کشمیر میں واحد ڈسٹری بیوٹر آزاد موٹرز سے 22 ٹویوٹا ہائی ایس ہائی روف ایمبولینس خریدی گئی تھیں۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق ایک ٹویوٹا ہائی ایس ہائی روف کی قیمت ایک کروڑ 64 لاکھ 49 ہزار روپے تھی، اس طرح ان 22 ایمبولینسز کی مجموعی مالیت 36 کروڑ 16 لاکھ 87 ہزار 8 سو روپے بنی، ان کی فیبریکشن، آلات، رجسٹریشن اور دیگر معاملات پر 10 کروڑ 30 لاکھ روپے زائد خرچ ہوئے، جس سے ان کی کل مالیت لگ بھگ 46 کروڑ 47 لاکھ روپے ہوگئی۔
یہ بھی پڑھیں:آزاد کشمیر: کہیں ترمیمی قانون کا مقصد احتساب بیورو کے ہاتھ باندھنا تو نہیں؟
آزاد کشمیر کے محکمہ صحت کے مطابق جون 2023 میں حکام نے میرپور میں واقع آزاد موٹرز کے شو روم میں ان 22 ایمبولینس گاڑیوں کا معائنہ کیا اور جولائی میں یہ ایمبولینسز اسلام آباد میں قائم محکمہ صحت کے گودام میں منتقل کی گئیں۔
حکام کے مطابق اگست 2024 میں اسلام آباد میں محکمہ صحت کے گودام میں ان ایمبولینسز کا حتمی معائنہ کیا گیا جس میں آزاد موٹرز اور انڈس موٹرز کی ٹیکنیکل ٹیم بھی موجود تھی، اس دوران انکشاف ہوا کہ مذکورہ ایمبولینسز 2023 ماڈل کی نہیں ہیں جس کی قیمت ادا کی گئی بلکہ 2022 ماڈل کی ہیں۔
مزید پڑھیں:آزاد کشمیر اسمبلی نے فنانس بل 2024 کی منظوری دے دی
آزاد موٹرز کی ویب سائٹ پر ایک ٹویوٹا ہائی ایس ہائی روف کی قیمت 75 لاکھ 55 ہزار روپے بتائی گئی ہے اور اس کی ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات ایک لاکھ 5 ہزار روپے بتائے گئے ہیں، اس حساب سے دیکھا جائے تو ان ایمبولینسز کی مجموعی قیمت 16 کروڑ 61 لاکھ 10 ہزار روپے بنتی ہے۔
ذرائع کے مطابق ایمبولینسز کی خریداری میں اس طرح لگ بھگ 20 کروڑ روپے کا نقصان کیا گیا، حکام نے اگست میں حتمی معائنے کے بعد فیصلہ کیا کہ مذکورہ ایمبولینس واپس کی جائیں گی اور آزاد موٹرز نے بھی 2023 ماڈل کی ٹویوٹا ہائی ایس ہائی روف فراہم کرنے پر اتفاق کیا۔
مزید پڑھیں:آزاد کشمیر کے عوام کی شکایات پر وزیراعظم پاکستان سے بات کروں گا، صدر مملکت آصف زرداری
حکام کے مطابق گزشتہ برس نومبر میں آزاد موٹرز نے 2023 ماڈل کی مطلوبہ ٹویوٹا ہائی ایس ہائی روف کا معائنہ کرایا، جس کے بعد محکمہ صحت نے حکومت کو خط لکھا کہ اسے 2022 ماڈل کی ایمبولینسز واپس کرکے 2023 ماڈل کی ایمبولینسز حاصل کرنے کی اجازت دی جائے لیکن حکام نے ابھی تک اس خط کا جواب نہیں دیا ہے۔
مبینہ کرپشن اور سرخ فیتے کا شکار ایمبولیسز کا منصوبہ عرصہ سے کھٹائی میں پڑا ہوا ہے، پرانے ماڈل کی ایمبولینسز اسلام آباد میں قائم محکمہ صحت کے گودام میں کھڑی ہیں، جنہیں اگلے ماڈل سے تبدیل نہیں کیا جاسکا ہے۔
مزید پڑھیں: آزاد کشمیر، بجلی سستی ہونے کے باوجود 70 فیصد لوگوں نے بل کیوں نہیں جمع کروائے؟
یوں تو چند روز قبل وزیر اعظم انوار الحق نے مذکورہ منصوبے کا کیس قومی احتساب بیورو کو بھیج دیا ہے، تاہم ماہرین یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ حکومت نے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے بجائے احستاب بیورو کو کیس کیوں بھیجا اور یہ کہ حکومت نے 2023 ماڈل کی ایمبولینسز کیوں حاصل نہیں کیں۔