چند روز قبل امریکا نے 16 پاکستانی کمپنیوں سمیت 26 فرمز کو امریکا کے برآمدی قواعد وضوابط کی خلاف ورزی بلیک لسٹ کردیا تھا۔ ان کمپنیوں پر الزام تھا کہ یہ امریکی دفاعی ٹیکنالوجی کی خریداری کے ذریعے قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن رہی تھیں۔
امریکا کی جانب سے پاکستان کی 9 کمپنیوں پر ’ایڈوانس انجینئرنگ ریسرچ آرگنائزیشن‘ کی فرنٹ کمپنیوں کے طور پر کام کرنے کا الزام عائد کیا گیا جو کہ پاکستان کے میزائل اور ڈرون پروگرام کی نگراتی کرتی ہیں۔ دیگر 7 کمپنیوں کو پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں معاونت پر بلیک لسٹ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور ایران کے اسلحہ پروگرام میں معاونت کا الزام، امریکا نے متعدد کمپنیاں بلیک لسٹ کردیں
امریکی میڈیا کے مطابق، بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں سے مستقبل میں پاکستان کے لیے حساس ٹیکنالوجی کے حصول اور چین کے ساتھ معاونت کی راہ میں رکاوٹ آسکتی ہے۔ تاہم ہتھیاروں کی تیاری کے پروگرام پر اس کا زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔
امریکی محکمہ تجارت کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کی زد میں آئی بیشتر کمپنیاں پاکستان، چین اور متحدہ عرب امارات میں اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی محکمہ تجارت کے مطابق، امریکی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے خلاف کام کرنے والی کسی بھی کمپنی یا شخص پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: برکس میں پاکستان کی شمولیت اور برکس کی اپنی کرنسی آنے کی خبریں
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی پابندیوں سے پاکستان کے میزائل پروگرام پر فرق نہیں پڑے گا کیونکہ امریکا ماضی میں بھی اس نوعیت کی پابندیاں عائد کرتا رہا ہے۔ دفاعی تجزیہ کار سلمان جاوید کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستان اپنی دیگر دفاعی ضروریات کے لیے امریکی ٹیکنالوجی پر انحصار کرتا ہے۔ لیکن پاکستان کا میزائل پروگرام بہت آگے جاچکا ہے لہٰذا ان پابندیوں کا اس پر اثر نہیں پڑے گا۔
دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود کہتے ہیں کہ پاکستان ٹیکنالوجی میں معاونت اور وسعت کے لیے اب چین کی طرف دیکھ رہا ہے۔ لیکن امریکی پابندیوں سے پاکستان کا چین کے ساتھ ڈرونز سے متعلق مستقبل میں تعاون اور ان کی دیگر ممالک کو فروخت متاثر ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کے ساتھ کاروبار کرنے والے پابندیوں سے ہوشیار رہیں، امریکا کا ایرانی صدر کے دورے پر تبصرہ
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے اسکول آف پالیٹیکس میں اسکالر سلمان علی کہتے ہیں کہ ان پابندیوں کا مقصد پاکستان کے جوہری پروگرام کو ریگولیٹ کرنے سے زیادہ چین پر دباؤ ڈالنا ہے، امریکی پابندیوں کا تسلسل دیکھا جائے تو اس کا مقصد بظاہر چین اور پاکستان کے درمیان تیکنیکی تعاون کا راستہ روکنا ہے، اس کا مقصد صرف پاکستان کے میزائل اور ڈرون پروگرام کا پھیلاؤ روکنا نہیں بلکہ یہ چین پر دباؤ بڑھانے کی بھی حکمتِ عملی ہے۔
یونیورسٹی آف پشاور میں اسسٹنٹ پروفیسر سید عرفاق اشرف نے کہا کہ امریکا اپنی اشیا کی بلیک مارکیٹ میں فروخت روکنے کے لیے سرگرم رہا ہے۔ لیکن مشرق وسطیٰ تنازع اور یوکرین جنگ کے تناظر میں یہ پابندیاں اہم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل پر حملہ: امریکا نے ایران کو مزید پابندیوں کی دھمکی دے دی
واضح رہے کہ پاکستان نے نئی امریکی پابندیوں پر تاحال کوئی ردِ عمل نہیں دیا۔۔ تاہم گزشتہ ماہ امریکا کی جانب سے 3 چینی اور ایک پاکستانی کمپنی پر پابندی کو پاکستان نے مسترد کیا تھا۔ امریکا نے ایک چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور کئی ایسی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی تھیں جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے ساز و سامان کی فراہمی میں ملوث ہیں۔ چین نے بھی امریکی پابندیوں کی سختی سے مخالفت کی تھی۔