معروف امریکی باکسر محمد علی کی سابق اہلیہ افغانستان کے دارالحکومت کابل پہنچ گئی ہیں جہاں وہ مبینہ طور پر ایک ایسے ملک میں اسٹیڈیم کا افتتاح کریں گی جہاں خواتین کے ہر طرح کے کھیل پر پابندی عائد ہے۔
طالبان حکومت کے اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ احمد اللہ واسق نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ خلیلہ کاماچو علی، جن کی شادی 1967 کے بعد ایک دہائی تک باکسر محمد علی کے ساتھ رہی ، افغانستان کے دارلحکومت کابل پہنچ گئی ہیں۔
طالبان حکومت کے سرکاری میڈیا نے اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ احمد اللہ واسق کے حوالے سے بتایا کہ وہ کابل شہر میں ایک ‘پیروزی’ (دری زبان میں فتح) نام کے ایک اسپورٹس اسٹیڈیم کی تعمیر اور عظیم باکسر محمد علی سے منسوب ایک اسپورٹس ایسوسی ایشن کا قیام ہے۔
خبر رساں ایجنسی کے مطابق 1950 میں امریکا میں پیدا ہونے والی کاماچوعلی نے اپنے ورلڈ چیمپیئن اور عظیم باکسر اور سابق شوہر محمد علی کے ساتھ ہی اسلام قبول کیا تھا، ان کا سابق نام بیلنڈا بوئیڈ تھا۔
محمد علی نے خود 2002 میں کابل کا دورہ کیا تھا، جب امریکی افواج نے طالبان کی پہلی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا، اس وقت محمد علی نے اقوام متحدہ کے امن سفیر کی حیثیت سے کابل کا دورہ کیا تھا اور لڑکیوں کے ایک اسکول میں بھی گئے تھے۔
2021 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت برسراقتدار آئی تو انہوں نے اسلامی قوانین کو سختی سے نافذ العمل کر دیا جس کے نتیجےمیں خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئیں، یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ نے طالبان کی ان پابندیوں کو ’صنفی امتیاز‘ قرار دیا تھا، جس میں خواتین کو کھیلوں میں حصہ لینے سے روکنا بھی شامل تھا۔
1996 سے 2001 تک طالبان کے پہلے دور حکومت میں کھیلوں کے اسٹیڈیم میں سرعام پھانسی دینا عام بات تھی۔ امریکی افواج کے انخلا کے بعد اقتدار میں واپسی کے بعد سے طالبان نے آہستہ آہستہ وہی قوانین نافذ کرنا شروع کر رکھے ہیں، سخت سزاؤں کا سلسلہ جاری ہے اور ایک اسپورٹس اسٹیڈیم میں کم از کم 2 سرعام پھانسیاں دی جا چکی ہیں۔
حکام نے حال ہی میں کھیلوں پر بھی پابندی عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ مکسڈ مارشل آرٹس کو بھی غیر اسلامی ہے۔ ان کی ویب سائٹ کے مطابق کاماچو علی ایک مارشل آرٹس کی ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ اداکارہ اور مصنفہ بھی ہیں۔
کاموچو علی کے شوہر محمد جنوب مشرقی ریاست کینٹکی میں پیدا ہوئے اور باکسنگ کے عظیم کھلاڑی کے طور پر جانے جاتے ہیں وہ افریقی امریکیوں کے شہری حقوق کے لیے جدوجہد کرنے اور ان کے لیے آواز اٹھانے کے لیے بھی مشہور تھے ان کا انتقال 2016 میں ہوا تھا۔