خان کی ڈیل ہو گئی؟

بدھ 30 اکتوبر 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آج کل تحریک انصاف کی سرگوشیوں کا زمانہ ہے۔ وہ لوگ جو کبھی عام سی بات بھی نعروں میں کیا کرتے تھے اب سرگوشیوں اور سسکیوں میں بات کرنے لگے ہیں۔ وہ جن کی رعونت کی مثالیں دی جاتی تھیں اب وہ خود مثال بن چکے ہیں۔ وہ جو کسی کی نہیں سنتے تھے اب اپنی بات سنانے کی سماجتیں کر رہے ہیں۔ شعلے بجھتے جا رہے ہیں اور بے وجہ  جارحیت، بے پناہ یاسیت میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ وقت بہت بدل گیا اور وقت کے ساتھ تحریک انصاف کے اطوار بھی بدلتے جا رہے ہیں۔

کوئی نادیدہ ڈیل ہے جس کا ہر کوئی ذکر کر رہا ہے۔ مگر یہ ذکر سرگوشیوں میں ہے۔ اس کے نعرے نہیں لگ رہے۔ ببانگ دہل کچھ نہیں کہا جا رہا۔ نجم سیٹھی بھی اس حوالے سے اپنی چڑیا اڑا رہے ہیں۔ خواجہ آصف بھی اس بات کو موضوع بنا رہے ہیں۔ شنگھائی کانفرنس کے بعد بشریٰ بی بی کی ضمانت کو لوگ اسی سلسلے کی کڑی بتا رہے ہیں۔ کچھ عمران خان کی رہائی کی نوید سنا رہے ہیں۔ کسی کے خیال میں مشکل کے دن کٹ گئے اور راحت کا زمانہ بس آ گیا ہے۔ رات گزر گئی ہے اور صبح کا سویرا بس نمودار ہونے کو ہے۔

آپ چاہیں تو ان افواہ نما خوشخبریوں پر یقین کرلیں مگر جو لوگ اس ملک کی سیاست کی کچھ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ ان افواہوں سے اتفاق نہیں کرسکتے۔ عمران خان کو سزا کسی سیاسی بغض کی وجہ سے نہیں مل رہی، ان کا جرم بہت بڑا ہے۔ وہ ریاست پر حملے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انہوں نے شہدا کی یادگاروں کو نذر آتش کروایا ہے۔ فوج کے سربراہ کی ذات پر کیچڑ اچھالا ہے۔ انہوں نے وطن سے بغاوت کا نعرہ بلند کیا ہے۔ سبز پاسپورٹ کو نذر آتش کروایا ہے۔ سبز ہلالی پرچم کو ان کے کارکنوں نے پیروں تلے روندا ہے۔ اس طرح کے جرم پر ڈیل نہیں ہوسکتی۔ اگر کبھی اسٹیبلشمنٹ میں سے کسی نے ڈیل کا سوچا بھی تو شہدا کے گھر والے ڈیل کرنے والوں کا گریبان ضرور پکڑیں گے۔

تحریک انصاف پر مشکل کا وقت ہے مگر اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ اب جبکہ بانی پی ٹی آئی جیل میں ہیں۔ بشریٰ بی بی اور خان کی بہنوں میں پارٹی کے اقتدار کی جنگ چل رہی ہے۔ پارٹی کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ کارکن ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو رہے ہیں۔ خان کی میڈیا سے ملاقاتوں پر پابندی لگ چکی ہے۔ نامزد چیئرمین کی کوئی سنتا نہیں۔ سب اپنی اپنی بولی سنا رہے ہیں۔ ایک دوسرے پر ٹاؤٹ ہونے کے الزامات لگا رہے ہیں۔ ممبران، ارکان  ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ کسی کو کسی کا اعتبار نہیں رہا۔ مدد اور امید کے تمام رستے بند ہو رہے ہیں۔ امریکا سے اگر خان کے حق میں آواز بلند ہوتی ہے تو ان سینیٹرز میں اسلام دشمن اور بھارت نواز سینیٹروں کی اکثریت ہے۔ برطانیہ سے جو مدد گار سامنے آئے وہ بھی یہودی لابی کے حامی نکلے۔

 اب سمجھ کسی کو کچھ نہیں آرہا ہے۔ سوشل میڈیا پر اب ٹرینڈ بھی نہیں بن رہے۔ الیکٹرانک میڈیا میں بھی خان کے حق میں بات کرنے والوں کے گلے چھل چکے ہیں اور آوازیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ یوٹیوبرز کا کاروبار چل رہا ہے مگر وہ پارٹی سے نہیں ویوز اور لائیکس کے چکر میں ہیں۔ کل کو کسی اور موضوع پر زیادہ ڈالر ملے تو وہ ادھر کی جانب دوڑتے نظر آئیں گے۔ ان کا نظریہ کچھ خاص نہیں۔ وہ مقبول بیانیے سے ڈالر کشید کرتے ہیں۔ جھوٹ سچ مکس مصالحہ ٹائپ کا چورن بیچ رہے ہیں۔ ان کی وفاداری پارٹی کے نظریے کے ساتھ نہیں کیونکہ ان کے لیے خبر ابلاغ نہیں کاروبار ہے۔

ان حالات میں تحریک انصاف کا سب سے مسئلہ امید کو زندہ رکھنا ہے۔ اس امید کو زندہ رکھنا جس کو علی امین گنڈا پور کئی دفعہ توڑ چکے ہیں۔ اس امید کو زندہ رکھنا جس پر کارکن فاتحہ پڑھ چکے ہیں۔ اس امید کو زندہ رکھنا جو اب شام کی طرح ڈھلتی جا رہی ہے۔ اس امید کو زندہ رکھنا جس کا اب کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ اس امید کو زندہ رکھنا جس کے دامن میں دشنام اور ہنگام کے سوا کچھ بھی تو نہیں رہ گیا۔

اسی امید کو زندہ رکھنے کے لیے کبھی دنیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹی کے چانسلر بننے کا خواب دکھایا گیا۔ کبھی یہ بتایا گیا کہ اب کے دھرنے سے انقلاب آوے ہی آوے۔ کبھی یہ بتایا گیا کہ امریکا سے سینیٹرز کا خط وجہ نجات ثابت ہوگا۔ کبھی یہ مژدہ سنایا گیا کہ برطانیہ کی حکومت اب خان کو خود جیل سے نکالنے آ رہی ہے۔ کبھی ٹرمپ کے الیکشن پر امید  قائم کی گئی۔ کبھی یہ افواہ اڑائی گئی کہ خان کو امن کا نوبل انعام مل رہا ہے۔ اسی سلسلے کی کڑی موجودہ افواہیں بھی ہیں۔ کیا عجیب المیہ ہے کہ  ڈیل سے متنفر پارٹی اب خود ڈیل کی افواہیں پھیلا رہی ہے۔

خان کے سپورٹرز کی امید کا ہر خواب اب بکھر چکا ہے۔ کچھ بھی تو نہ ہوا۔ نہ خان کے گرفتار ہونے سے قیامت آئی، نہ فیض حمید کے زنداں میں جانے سے آسمان ٹوٹا نہ بشریٰ  بی بی کی اسیری سے کارکنوں نے قیامت بپا کی، نہ مقدمات میں سزا کے اعلان سے لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ نہ کوئی دھرنا کامیاب ہوا نہ کسی ہڑتال میں کوئی شدت دکھائی دی۔ نہ کسی جلسے میں لاکھوں لوگ حاضر ہوئے نہ اڈیالہ کے باہر کوئی پتھراؤ، جلاؤ گھیراؤ ہوا ۔ نہ خان کی رہائی کے لیے کسی نے سنجیدہ کوشش کی نہ پارٹی میں طاقت کا کھیل ختم ہوا۔

تحریک انصاف کے دامن میں اب افواہوں کے سوا کچھ نہیں۔ اپنے کارکنوں کو مطمئن کرنے کی کوششیں اب دم توڑ رہی ہیں۔ اب نعرے معدوم اور نظریے کا کال پڑ گیا ہے۔ ان حالات میں اگر کارکنوں کو پتا چلا کہ بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور میں جو ڈیل ہوئی اس کی سزا اب سوشل میڈیا کے کارکنوں کو ملے گی تو ان کی ناامیدی  کا کیا حل ہو گا؟ جب چوری چھپے پارٹی کو سپورٹ کرنے والوں کے نام، انتشار پھیلانے والوں کی لسٹیں اور احتجاج کی کال دینے والوں کا کچا چٹھا خود پارٹی کے اکابرین طشت از بام کریں گے تو کارکنوں کے پاس افواہوں کا سہارا بھی نہیں رہ جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp