اردو نثر میں ‘پطرس کے مضامین’ جتنی پذیرائی شاید کسی ادبی کتاب کے حصے میں نہیں آئی۔ اس تصنیف لطیف نے پطرس بخاری کو امر کر دیا۔ اشاعت کو نوے برس سے زائد عرصہ گزرنے پر بھی اس کی مقبولیت ماند نہیں پڑی۔ اسے آج بھی دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے کہ بڑا ادب کبھی پرانا نہیں ہوتا اور کلاسیکی ادب کی تعریف بھی یہی ہے۔
پطرس کے مضامین کا تذکرہ آج اس لیے چھیڑا ہے کہ اس کے پرلطف دیباچے کے پس منظر پر کچھ بات ہو، تھوڑا ذکر پطرس کے استاد مرزا محمد سعید کا ہو اور باقی غلام عباس اور پطرس کی دوستی کی کہانی آپ کو سنائی جائے۔
پہلے آپ پطرس کے مضامین کا دیباچہ ملاحظہ کرلیں تو پھر اس کے پس منظر پر بات کرتے ہیں:
‘ اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے ،تو میں آپ کے ذوق کو داد دیتا ہوں، اپنے پیسوں سے خریدی ہے،تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اب بہتر یہی ہے کہ آپ اس کتاب کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں۔
ان مضامین کے افراد سب خیالی ہیں، حتیٰ کہ جن کے لیے وقتاً فوقتاً واحد متکلم کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے وہ بھی ’ہر چند کہیں کہ ہیں، نہیں ہیں‘ آپ تو اس نکتے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، لیکن کئی پڑھنے والے ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس سے پہلے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔ ان کی غلط فہمی اگر دور ہو جائے تو کیا ہرج ہے۔
جو صاحب اس کتاب کو غیر ملکی زبان میں ترجمہ کرنا چاہیں، وہ پہلے اس ملک کے لوگوں سے اجازت حاصل کر لیں۔’
اب اس کا پس منظر۔
یہ لازوال کتاب دارالاشاعت پنجاب ریلوے روڈ لاہور سے شائع ہوئی تھی۔ یہ ادارہ پطرس کے عزیز دوست امتیاز علی تاج کے والد مولوی ممتاز علی نے قائم کیا تھا۔ اس کے علمی و ادبی امور تاج اور انتظامی معاملات ان کے بھائی حمید علی دیکھتے تھے۔ پطرس کے مضامین کی اشاعت کا جن دنوں ڈول ڈالا گیا غلام عباس وہیں کام کرتے تھے۔ ان کے بقول ‘ میرے فرائض میں اخبار ‘پھول ‘ کی ایڈیٹری کے علاوہ کتابوں کی نشرو اشاعت کا کام بھی داخل تھا۔’
اس لیے انہیں پطرس کی کتاب کے اشاعتی عمل کو قریب سے دیکھنے اور اس کا حصہ بننے کا منفرد اعزاز حاصل ہوا۔
پطرس کی دسویں برسی پر غلام عباس نے ناشر کی حیثیت سے ‘پطرس کے مضامین’ شائع کیے تو کتاب کے شروع میں ‘پس منظر’ کے عنوان سے ان کی ایک تحریر شامل تھی۔ اس میں انہوں نے بتایا کہ کتاب کے باقی فرمے چھپ گئے لیکن وہ ایک فرمہ رہ گیا تھا جس میں پطرس کا دیباچہ شامل ہونا تھا۔ ان کی طبیعت دیباچہ لکھنے کی طرف نہیں آ رہی تھی جس کی وجہ سے کتاب تعویق کا شکار تھی۔ پطرس، امتیاز علی تاج سے ملنے آتے تو غلام عباس دیباچے کا تقاضا کرتے۔ تاج صاحب بھی یار سے کہتے :’ ارے بھئی اب لکھ کر ختم بھی کرو۔’ لیکن پطرس پکڑائی نہیں دیتے تھے۔
یہ کڑی مہم سر ہونے کی کہانی غلام عباس نے کچھ یوں بیان کی ہے:
‘ایک دن وہ آئے تو تاج صاحب گھر پر نہ تھے۔ میں اپنے کمرے کے باہر ‘دارالاشاعت’ کے بڑے دروازے کے اندر ٹہل رہا تھا ، میں نے سلام کرکے کہا : “جناب وہ دیباچہ—‘
کہنے لگے: ’اچھا کاغذ پنسل لے لو۔‘
میں نے کاغذ پنسل لے لی۔
کہنے لگے : ’لکھو‘
اور انہوں نے دروازے ہی میں کھڑے کھڑے لکھوانا اور میں نے کھڑے کھڑے لکھنا شروع کیا…اس طرح انہوں نے تین چار ہی منٹ میں مجھے وہ دیباچہ لکھوا دیا جو کتاب کی جان ہی نہیں ان کی مزاح نگاری اور اسلوب نگارش کا بھی بہترین نمونہ ہے۔’
لاہور کے بعد دلی سے پطرس کے مضامین کے ایڈیشن کی صورت نکلی تو اس کی تیاری میں بھی غلام عباس کا اہم کردار تھا۔
1936 میں پطرس بخاری آل انڈیا ریڈیو کے ڈپٹی کنٹرولر بن کر دلی چلے گئے تو انہوں نے وہاں یارانِ موافق جمع کر لیے۔ لاہور سے غلام عباس نے دلی کوچ کیا اور ریڈیو کے رسالے ‘آواز’ کے ایڈیٹر ہو گئے۔
پطرس کے ایما پر غلام عباس ‘پطرس کے مضامین’ کا پرانا نسخہ لے کر مرزا محمد سعید کے پاس گئے اور زبان کی اصلاح کرنے کی درخواست کی۔ مرزا صاحب کا موقف تھا کہ بخاری بہت اچھی اردو لکھتے ہیں اس لیے درستی کی ضرورت نہیں۔ بہر حال پطرس کی خوشنودی طبع کے لیے انہوں نے کتاب رکھ لی اور کہیں کہیں کوئی لفظ بدل دیا۔ کتاب لوٹاتے ہوئے غلام عباس سے کہا:’ بھئی میں نے ان کی خواہش پوری کر دی ورنہ ان کو کسی اصلاح کی ضرورت نہیں ۔’
غلام عباس کے بقول ‘ میں یہ اصلاح شدہ نسخہ بخاری صاحب کے پاس لے گیا۔ جیسے کوئی طالب علم اپنی کاپی پر استاد کی کم سے کم اصلاح دیکھ کر خوش ہوتا ہے ویسی ہی طفلانہ خوشی بخاری صاحب کی آنکھوں میں بھی جھلک رہی تھی۔’
اس ایڈیشن میں پطرس نے اظہار عقیدت کے عنوان کے تحت جو چند سطریں لکھیں وہ بھی دیکھ لیں:
‘میں اپنے استاد محترم جناب پروفیسر مرزا محمد سعید صاحب دہلوی کا ممنون ہوں جنہوں نے اس کتاب پر نظر ثانی کی ، اور اسے بعض لغزشوں سے پاک کیا۔
میں اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ مجھے اب بھی ان سے فیض تلمذ حاصل ہے۔’
غلام عباس کے پطرس سے تعلق کو اب ‘پطرس کے مضامین’ سے باہر نکال کر دیکھتے ہیں۔ دونوں کی دوستی اپنی جگہ لیکن غلام عباس کے لیے اس تعلق میں عقیدت کا پہلو بھی شامل تھا ۔ ‘نقوش’ کے محمد طفیل کے نام خط میں وہ لکھتے ہیں:
‘مرحوم سے جو عقیدت مجھے عمر بھر رہی ہے وہ مجھے مضمون لکھنے پر مجبور کررہی ہے ورنہ ان دنوں میں کہاں اور لکھنا کہاں.’
غلام عباس نے لاہور میں ادب کو سنجیدگی اور توجہ سے پڑھا۔ فکشن کا ترجمہ کیا، کہانیاں لکھیں، برصغیر کے معروف اشاعتی ادارے میں نو برس کام کیا۔
1920کی دہائی کے وسط میں لاہور میں نیاز مندان لاہور کے نام سے ایک ادبی حلقہ قائم ہوا جس میں ایم ڈی تاثیر، امتیاز علی تاج، عبدالمجید سالک، چراغ حسن حسرت، عبدالرحمٰن چغتائی، پطرس، حفیظ جالندھری، مجید ملک اور دیگر شامل تھے۔ اس ادارے نے لاہور کی ادبی فضا کو منور کر دیا۔ غلام عباس اس حلقے کے باقی اراکین سے جونیئر تھے لیکن اپنی ادبی لیاقت کی بنا پر ان کی نہ صرف نیاز مندان لاہور کی مجلسوں میں رسائی ممکن ہوئی بلکہ اس کے وابستگان سے محبت اور احترام کا ایسا رشتہ استوار ہوا جو عمر بھر کے تعلق میں تبدیل ہو گیا۔
پطرس سے غلام عباس کی ہمدمی اسی زمانے میں شروع ہوئی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتی گئی۔ نیاز مندان لاہور میں سے پطرس کے ساتھ ان کی ملاقاتیں اس لیے بھی زیادہ رہیں کہ وہ دارالاشاعت پنجاب میں امتیاز علی تاج سے برابر ملنے آتے تھے۔
پطرس لاہور سے دلی گئے تو غلام عباس کو بھی ریڈیو میں نوکری دلا دی۔ پاکستان بننے کے بعد اقوام متحدہ سے وابستہ ہوئے تو وہاں بھی ان کی ملازمت کے لیے کوشش کرتے رہے۔ عبد المجید سالک کو خط میں لکھا:
‘عباس کو بی بی سی سے یو این بلانے کی کوشش کر رہا ہوں، وہ آجائیں تو بہت ہی خوب ہو۔’
پطرس نے دیار غیر میں ہم نفسوں سے دور رہنے کی بڑی بھاری قیمت ادا کی۔ ان کے غموں کا تریاق دوست احباب کے خط تھے۔ یہ غریب الوطنی کے زخموں پر پھاہے کا کام دیتے تھے۔ ان کے یاروں میں عبد المجید سالک اور غلام عباس ہی بس باقاعدگی سے خط لکھتے تھے۔ اس سلسلے میں باقی دوستوں کی کوتاہی انہیں آزردہ کرتی تھی۔
دساور میں خطوط کی اہمیت کیا ہوتی ہے اس کا اندازہ ن م راشد کے غلام عباس کے نام خط سے ہوتا ہے:
‘ سمندر پار آکر پہلی مرتبہ یہ احساس ہوا کہ ‘ خطوں کی بھوک’ مختلف قسم کی بھوکوں سے زیادہ تیز، زیادہ شدید بھوک ہے۔ ’جوع الارض‘ سے بھی زیادہ ، جو سب سے بدنام قسم کی بھوک تصور کی جاتی ہے۔’
غلام عباس کے خطوط کی پطرس کے نزدیک کیا اہمیت تھی یہ جاننے کے واسطے یہ ٹکڑا ذرا ملاحظہ ہو:
‘میں آپ کے ہر خط کو نعمت سمجھتا ہوں اور دوسروں کی خاموشی اور بے رخی کے مقابلے میں ان کو اپنے اوپر بہت بڑا احسان سمجھتا ہوں۔ آپ کا خط آتا ہے تو وہ دن روشن ہو جاتا ہے۔’
ایک دوسرے خط میں لکھا:
‘آپ کے خط سے شعر وسخن کی یاد تازہ رہتی ہے اور ذہن کے سوتے خشک ہونے نہیں پاتے۔ خدا آپ کو خوش رکھے۔ ‘
ایک جگہ غالب کا یہ شعر رقم کیا :
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
ایک خط میں ولی دکنی کے اس شعر کی بڑی تعریف کی:
اس رات اندھاری میں مت بھول پڑوں تس سوں
ٹک پاؤں کے جھانجھے کا آواز سناتی جا
بریکٹ میں لکھا: ‘مجھے معلوم نہ تھا کہ ابتدائی دکنی میں آواز مذکر ہے ۔ شاید اب بھی ہو۔’
غلام عباس پطرس کے علمی و ادبی مشیر بھی تھے۔ ان کی رائے پر انہیں اعتبار بھی بہت تھا۔ ایک انگریزی رسالے نے پاکستان ادب نمبر کے لیے بخاری کو ایڈیٹر چنا تو انہوں نے اس کا مجوزہ خاکہ ،غلام عباس سے شئیر کرکے، ان سے رائے مانگی اور خط کے آخر میں لکھا:
‘ان سب معاملات پر مجھے اپنی صائب رائے سے مستفید فرمایے۔ آپ کے سوا کون ہے جس کی جانب رجوع کروں ۔ جو صاحب فہم ہیں وہ سست ہیں ، جو چاق و چوبند ہیں وہ اکثر کور ذوق ہیں۔ خدا نے آپ کو ہمت اور ذوق دونوں چیزیں عطا فرمائی ہیں۔’
ذاتی زندگی میں غلام عباس کی کلفتوں پر وہ خطوط میں ایک مخلص دوست کی طرح ان کی دل جوئی کرتے۔ درد بانٹتے۔دعائیں دیتے۔
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ پطرس نے زندگی میں آخری خط غلام عباس کے نام ہی لکھے جن کا علم انہیں اس وقت ہوا جب وہ کراچی میں ان کے سوئم کی فاتحہ کے بعد اپنے دفتر گئے:
‘غیر ملکی ڈاک کے دو لفافے میری میز پر رکھے تھے۔ ان پر نہایت خوش خط انگریزی میں میرا نام اور پتہ لکھا تھا۔مجھے اس تحریر کو پہچاننے میں کوئی دقت نہ ہوئی۔ لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی تھی۔ کیونکہ یہ دونوں خط پطرس مرحوم کے تھے۔ ان میں سے ایک انہوں نے موت سے صرف ایک دن پہلے لکھا تھا اور دوسرا موت کی بے ہوشی سے صرف چند گھڑیاں قبل۔
ایک خط میں تحریر تھا ‘یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ میرے پاس اپنے دوستوں کی کتابیں تک نہیں۔ اپنی کتابیں فوراً بھیجو۔’
دوسرا خط پاکستانی افسانہ نگاروں کے بارے میں تھا جن کے افسانوں کا انگریزی ترجمہ کرکے وہ کتابی صورت میں چھپوانا چاہتے تھے اور اس سلسلے میں بعض افسانوں کا ترجمہ کر بھی چکے تھے۔’
پطرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی انا بڑی تھی۔لیکن یہ بات دل کو نہیں لگتی کیوں کہ جو انسان گورنمنٹ کالج میں انگریزی کا پروفیسر، شاہکار مضامین کا خالق اور لاہور کی ادبی و ثقافتی زندگی کی جان ہو، وہ ایک نوجوان شاعر ن م راشد کو اس کی نظم ‘اتفاقات’ کی داد دینے بنفس نفیس اس کی رہائش پر پہنچ جائے اس سے نخوت منسوب کرنا قرین انصاف نہیں ۔
ہمارے ہاں ڈگریوں میں بندوں کو تولنے والے پروفیسر صاحبان رسمی تعلیم کے اعلیٰ مدارج طے نہ کرنے والے حضرات سے عام طور پر خار کھاتے ہیں۔ پطرس بخاری باہر کے تعلیم یافتہ اور پروفیسروں کے پروفیسر لیکن انہیں کالج کا منہ نہ دیکھنے والے غلام عباس سے دوستی میں کوئی عار نہ تھی کیونکہ وہ غلام عباس کے اصل ہنر سے واقف تھے اور اس کے قدر شناس بھی۔
غلام عباس’آواز’ کے ایڈیٹر بنے تو ڈگری نہ ہونے کی وجہ سے ایک صاحب نے ان کے تقرر پر اعتراض کیا جس پر پطرس کا مؤقف تھا کہ مختلف زبانوں کے جن ادیبوں کے افسانے غلام عباس نے ترجمہ کیے ہیں معترض نے بیش تر کا نام بھی نہیں سنا ہو گا۔
غوغائے رقیباں کے بعد پطرس نے غلام عباس سے کہا کہ آج تو وہ افسر ہیں، کل کلاں کسی اور کے آجانے سے کہیں مسئلہ نہ ہو ،اس لیے رسمی تعلیم کی کمی بھی پوری کر لینی چاہیے۔ اس پر غلام عباس نے ایف اے کا امتحان پاس کیا اور بی اے کی تیاری بھی شروع کی مگر حالات نے گریجویٹ نہیں بننے دیا۔ لیکن قدرت نے ادب میں وہ مقام دیا کہ قرۃ العين حیدر نے اردو افسانے کی سلطنت کا معمار قرار دیا اور پطرس نے لکھا:’غلام عباس کے افسانے سب اردو افسانوں سے نرالے ہیں۔’
پطرس زندگی کی آخری سانسوں تک دوستوں کی کتابوں کے لیے ترستے رہے اور دوسرے ادیبوں کی نگارشات انگریزی میں ترجمہ کرنے کی دھن ان پر سوار رہی۔
ادب میں دوسروں سے محبت اور بے لوثی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔ پطرس اور غلام عباس سے ہم صرف لکھنے کا ہنر نہیں، انسانی تعلق نبھانے کا قرینہ بھی سیکھ سکتے ہیں ۔