غلام عباس کا پاکستان

ہفتہ 2 نومبر 2024
author image

مشکور علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’میں کیپٹن آدم خان سکنہ ضلع جھنگ عمر پینتیس (۳۵) سال آپ سے مخاطب ہوں میرا خلائی جہاز اس وقت چاند کی سطح سے صرف 5 ہزار فیٹ کی بلندی پر رہ گیا ہے۔ جہاز کی رفتار 75 میل فی گھنٹہ کر دی گئی ہے۔ مجھ کو چاند کی سطح بہت صاف نظر آرہی ہے ۔ ۔ ۔ اب بلندی صرف 2 ہزار فیٹ رہ گئی ہے۔ جہاز کی رفتار 40 میل فی گھنٹہ ہے ۔ ۔ ۔ خدا نے چاہا تو میرا جہاز حسب توقع آہستگی کے ساتھ چاند پر اتر جائے گا ۔ ۔ ۔ اب میں ایک ہزار فیٹ سے بھی کم بلندی پر ہوں۔ جہاز کی رفتار بتدریج بہت کم کی جا رہی ہے ۔ ۔ ۔ اب میں چاند کی سطح سے صرف 7 سو فیٹ بلند ہوں ۔ ۔ ۔ 5 سو فيٹ ۔ ۔ ۔ رفتار 10 میل فی گھنٹہ ۔ ۔ ۔ صرف اڑھائی سو فیٹ ۔ ۔ ۔ سو فيٹ ۔ ۔ ۔ الحمدللہ کہ میرا خلائی جہاز صحیح سلامت چاند کی سطح پر اتر گیا ہے ۔ ۔ ۔ اس وقت پاکستانی گھڑیوں کے مطابق رات کا ایک بج کر 48 منٹ اور 4 سیکنڈ آئے ہیں۔ پاکستان زندہ باد‘۔

امریکا کے نیل آرمسٹرانگ نے 20 جولائی 1969 کو چاند پر قدم رکھا، مضمون کا آغاز غلام عباس کے افسانے ’دھنک‘ سے مقتبس ہے جو یکم جون 1969 کو کراچی سے کتابی شکل میں شائع ہوا تھا جب چاند پر انسان کا اترنا شاید ہی کسی کے وہم وخیال میں ہو۔ حیرت انگیز طور پر غلام عباس نے مذکورہ افسانہ اشاعت سے کئی برس قبل مکمل کرلیا تھا۔

آج (2نومبر) اردو کے ممتاز ادیب اور میرے پسندیدہ لکھاری غلام عباس (1982-1909) کی 42ویں برسی ہے۔ کتاب کے پیش لفظ بعنوان ’عرضِ حال‘ میں غلام عباس نے لکھا تھا ’یہ افسانہ میں نے آج سے 2 سال قبل لکھا تھا۔ اس وقت میں تصور بھی نہ کرسکتا تھا کہ اجرام فلکی کی تسخیر کے لیے انسانی مہمات اس قدر شدت اختیار کرلیں گی کہ اگلے 2 ہی برس میں انسان کا چاند پر پہنچنا ممکن ہو جائے گا۔ اور اس کے ساتھ ہی ٹیلی ویژن کی نشریات میں بھی اس قدر ترقی ہو جائیگی کہ اس کے ذریعے ساری دنیا انسان کی اس فیروز مندی کا ’تماشا‘ دیکھ سکے گی۔

میں چاہتا تو افسانے میں ترمیم و تنسیخ کرکے اسے جدید ترین حالات کے مطابق بنا سکتا تھا۔ لیکن چونکہ میں نے تسخیر قمر کو محض انسان کی انتہائی ترقی کے Symbol (علامت) کے طور پر استعمال کیا ہے حقیقت پسندانہ نقطہ نظر سے نہیں، اس لیے ان تبدیلیوں سے افسانے کے نفسِ مضمون میں کچھ فرق نہ پڑتا۔ چنانچہ میں نے اسے جوں کا توں ہی رہنے دیا ہے یعنی جیسا کہ آج سے 2 سال پہلے میرے تخیل میں اس کا نقش اُبھرا تھا۔

حکیم الامت علامہ اقبال کی تعلیمات کے زیر اثر، میں نے خود کو کبھی کسی فرقے سے وابستہ نہیں کیا۔ بلکہ ملت اسلامیہ کا ایک فرد سمجھا ہے۔ اپنی اس حیثیت سے میں نے ملت کے مستقبل کے بارے میں جو خدشات محسوس کیے، ان کا اظہار ایک افسانے کے پیرائے میں کیا ہے کہ یہی میرا فن ہے۔ حضرت علامہ اقبال نے غیر منقسم ہندوستان میں اہل وطن کی بے حسی، نا اتفاقی اور فرقہ بندی کو دیکھتے ہوئے انہیں خبردار کیا تھا:

نه سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والو
تمہاری داستان تک بهی نه ہو گی داستانوں میں

میں نے بھی کچھ اسی قسم کے حالات سے متاثر ہو کر یہ افسانه لکھا ہے۔ اس سلسلے میں مجھے اتنا اور عرض کرنا ہے که اس افسانے میں مسلمانوں کے کسی خاص فرقے یا جماعت یا کسی خاص شخصیت کو ہدف نہیں بنایا گیا۔ اور اگر کہیں مماثلت نظر آئے تو اسے محض اتفاقیہ سمجھا جائے‘۔
(یکم جون ١٩٦٩ء ۔ غلام عباس)

آنندی (اس افسانے پر بھارت نے فلم منڈی بنائی)، اوورکوٹ اور کتبہ والے غلام عباس کی تخلیقات دوسرے افسانہ نگاروں کے مقابلے میں اگرچہ تعداد میں کم تھیں لیکن معیار دوسرے افسانہ نگاروں سے قطعی کم نہیں، ن۔م راشد لکھتے ہیں : غلام عباس ہی غالباً وہ واحد افسانہ نگار ہے جس کا فن انسانی زندگی کے رنگا رنگ مسائل کا احاطہ کرتا ہے جسے زندگی سے گہری محبت ہے۔ اتنی گہری محبت کہ وہ اس کے بخیے ادھیڑتا ہے، نہ اسے ننگا کرتا ہے نہ اپنی انا سے اسے مرعوب کرتا ہے بلکہ زندگی کو اپنا محرم راز جانتا ہے، اس سے سرگوشیاں کرتا ہے اور اس کی سنتا ہے۔

ڈاکٹر سلیم اختر نے غلام عباس کے بارے میں کہا تھا: اتنا کم لکھ کر اتنا اچھا لکھا کہ اردو افسانہ کی کسی بھی نقطہ نظر سے بھی تاریخ کیوں نہ مرتب ہو وہ غلام عباس کے افسانہ کے بغیر نامکمل رہے گی۔ غلام عباس نے 3 افسانوی مجموعے (آنندی، جاڑے کی چاندنی اور کن رس)، 3 ناولٹ، بچوں کے لیے نظموں کا مجموعہ، بچوں کے  لیے کہانیاں، ترجمے اور مختلف مضامین لکھے۔ غلام عباس کہتے ہیں ’ترقی پسند افسانہ نگاروں کو کسی سیاسی و سماجی منشور کا پابند نہیں بنایا جاسکتا اور کسی سیاسی گروہ سے ناوابستگی سے مراد سیاسی شعور کی عدم موجودگی نہیں، نہ کوئی کہانی سیاست سے کلیتہً عاری ہوسکتی ہے‘۔

’دھنک‘ میں سیاست کے ہاتھوں مذہبی استحصال کی عبرتناک منظر کشی کی گئی ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار پاکستان ہے۔ ہوٹل موہنجو داڑو میں پاکستان کی چاند تک رسائی کی تقریب سے کہانی آگے بڑھتی ہے۔ مذہبی تناظر میں ملاؤں کا حکومت کے خلاف ہنگامہ، پھر ان کی حکومت بننا اور پھر معاشرتی اور سماجی تباہی کا آغاز ۔ ۔ ۔ ترقی کرتا معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے اور اختتام میں موہنجوداڑو کے آثار تباہ شدہ معاشرے کی علامت کے طور پر سامنے آتے ہیں۔

غلام عباس سراپا پاکستانی تھے، تقسیم ہند کے بعد دلی سے ریڈیو میگزین آواز کی ادارت چھوڑ کر پاکستان آ گئے، پھر رزق کی تلاش میں برطانیہ (بی بی سی) گئے تو اپنی ہمکار ’کِرس‘ سے شادی کی اور شہریت کی پیشکش کے باوجود پاکستان لوٹ آئے۔ کہا جاسکتا ہے کہ ’دھنک‘ کی کہانی ان کی حب الوطنی کی روداد ہے۔

1962 یا 1963 کے لگ بھگ زینب عباس (کِرس) مصوری اور موسیقی کا سکول چلا رہی تھیں، چند لوگوں نے مل کر سکول کی مخالفت کی۔ ستار طاہر لکھتے ہیں ’غلام عباس کی بیگم ایک سکول چلاتی تھیں جہاں بچوں کو مصوری اور موسیقی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ یہ واقعہ مجھے مرحوم غلام عباس نے خود سنایا تھا کہ جب اسکول میں موسیقی اور مصوری کی کلاسیں شروع ہوئیں تو مختلف مذہبی فرقوں سے تعلق رکھنے والے بعض حضرات نے اس کے خلاف تحریک چلائی، دھمکیاں دیں اور فتوے صادر فرمائے۔ یہی واقعہ غلام عباس کی لازوال کہانی ’دھنک‘ کی وجہ تخلیق بنا‘۔

غلام عباس اپنی اہلیہ زینب عباس کے ہمراہ

زینب عباس نے اس واقعے کا ذکر اپنی آپ بیتی میں نہیں کیا۔ صرف اتنا لکھا کہ غلام عباس اس زمانے میں ایک کہانی لکھ رہے تھے:
“Abbas was writing a satirical story that represented the nation destroyed from within by superstition and narrow mindedness. It opens with a team of Pakistani scientists landing on the moon and closes with a group of foreigners treading the earth of a new Mohenjo Daro (mound of the dead). Five years later, the Americans, in fact, landed on the moon.”

1969 سے 2 سال قبل کا مطلب ہے کہ کہانی 1967 میں لکھی گئی تھی، تاہم زینب عباس نے لکھا تھا کہ ’دھنک‘ کی تحریر کے 5 سال بعد واقعی انسان چاند پر اترا۔ جولائی 1969 میں انسان چاند پر اترا۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ دھنک 1964 سے 1965 کے درمیان لکھی گئی کہانی تھی۔

ناول نگار محمد عاصم بٹ لکھتے ہیں ’غلام عباس کا طویل افسانہ ’دھنک‘ جیسا 1969 میں برمحل تھا اور اپنی ایک خاص معنویت رکھتا تھا، ایسے ہی آج بھی اس کا جواز بہت واضح ہے اور اس کی معنویت کے کئی نئے پہلو وا ہوتے ہیں۔ پیلی، نیلی اور سفید پگڑیوں والے ملاؤں کی کہانی (دھنک) اس دور میں ضرور قبل از وقت تصور کی جاسکتی ہوگی، لیکن آج اس کے برمحل ہونے کی کہیں زیادہ ٹھوس شہادتیں موجود ہیں۔

دھنک میں ایسے معاشرے کی کہانی بیان کی گئی ہے جو اعلیٰ تر سائنسی کمالات کے درجے پر پہنچنے کے بعد محض مذہبی تنگ نظری اور ملاؤں کی فرقہ پسندیوں اور ذہنی و فکری گھٹن کے باعث بربادی کا شکار ہوتا اور کھنڈر میں تبدیل ہوکر رہ جاتا ہے۔ گزرے ہوئے کل میں لکھا گیا یہ افسانہ ہماری آج کی صورت حال کو اپنا موضوع بناتا ہے‘۔

امریکا سے پہلے پاکستان کو چاند پر پہنچا چکی کہانی ’دھنک‘ کا اختتام یوں ہے ’گائیڈ چلتے چلتے خود ہی ٹھہر گیا۔ چاروں سیاح گردنیں گھما گھما کر گرد و پیش کا منظر دیکھنے لگے۔ گائیڈ نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا، پھر وہ ریت پر ایک خاص جگہ جہاں کچھ کھنڈر تھے، اشارہ کرکے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہنے لگا: صاحب! یہی وہ جگہ ہے جہاں ہوٹل موہنجوداڑو ہوا کرتا تھا، جس کی 71 منزلیں تھیں اور جہاں پہلی مرتبہ پاکستانی خلا پیما نے چاند سے ریڈیو پر پیغام بھیجا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp