امریکی انتخابات میں ووٹرز کا فراڈ نتائج پر اثرانداز کیوں نہیں ہوسکتا؟

ہفتہ 2 نومبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آپ نے ایسی کہانیاں تو سنی ہوں گہ کہ کوئی فرد متعدد ووٹ ڈال دے، لوگ اپنے رشتہ داروں کے نام پر ووٹ ڈال دیں یا پھر ڈاک کے ذریعہ ووٹ کو راستے میں روک لیا جائے، کیا امریکا میں بھی ایسا ہوتا ہے؟ امریکا میں ووٹر فراڈ کبھی کبھار ہوتا تو ہے۔ اور جب ایسا ہوتا ہے تو ہم اس کے بارے میں بہت کچھ سنتے ہیں۔ اس کی نشاندہی بھی ہوتی ہے اور اس میں ملوث افراد کو مجرمانہ الزامات کے ساتھ قانون کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

الیکشن کا انتظام کرنے والے اہلکاروں کے مطابق امریکا کا کئی تہوں پر مشتمل انتخابی عمل اس طرح محفوظ بنایا گیا ہے کہ ووٹر فراڈ پکڑا جاتا ہے اور وہ شاز و نادر ہی ہوتا ہے۔ امریکی الیکشن ایک غیر مرکزی نظام کے تحت منعقد ہوتے ہیں جس میں ہزاروں علاقے اپنا آزاد دائرہ اختیار رکھتے ہیں۔ اس طرح بڑے پیمانے پر جعلی ووٹ ڈالنے کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں اور صدارتی مقابلے یا کسی اور دوسرے مقابلے کے نتائج بدلے نہیں جاسکتے۔

ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ریاست کینٹکی کے سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ اور محفوظ الیکشن منصوبے کے چیئر مین ٹرے گرے سن کہتے ہیں کہ انتخابی نظام غالباً کبھی بھی مکمل طو پر غلطی سے پاک نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر آپ ایسے نظام کی تلاش میں ہیں کہ جس کے بارے میں آپ پر اعتماد ہوں تو امریکا میں رہتے ہوئے آپ کو اس کے بارے میں اچھا محسوس کرنا چاہیے کیونکہ یہاں پر کئی ہزار خود مختار علاقے ہیں۔

مزید پڑھیں:امریکا انتخابی مہم: ٹرمپ اور ہیرس کے مابین سخت جملوں کا تبادلہ

ان کا کہنا ہے کہ امریکی نظام میں الیکشن میں بڑے پیمانے پر ووٹ کی دھاندلی اس طریقے سے ممکن نہیں ہو سکتی کہ الیکشن کے نتائج ہی بدل جائیں۔ ایک سے زیادہ بار ووٹ ڈالنا، بیلٹ میں ردوبدل کرنا، اپنے رہائشی پتے کو غلط بتا کر کسی اور جگہ ووٹ ڈالنا یا پھر کسی دوسرے شہری کا ووٹ ڈالنا ایسے جرائم ہیں جن کی سزا میں بھاری جرمانہ اور جیل کی سزا بھی شامل ہے۔

امریکا میں بسنے والے غیر امریکی اگر الیکشن قوانین کی خلاف ورزی کریں تو انہیں ملک بدر بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود پھر بھی اگر کوئی فرد دھوکہ دہی کرتا ہے تو امریکی نظام میں تحفظات اور شفافیت کی کئی تہیں ایسا ممکن ہونے سے روکتی ہیں۔ شہریوں کے خود جاکر ووٹ ڈالنے کی صورت میں زیادہ تر ریاستوں میں ووٹرز کو اپنی شناخت کے لیے شناختی کارڈ دکھانا ہوتا ہے۔

اسی طرح دوسرے طریقوں میں ووٹرز سے کہا جاتا ہےکہ وہ اپنا نام اور اپنے گھر کا پتا بتا کر انتخابی کتاب میں دستخط کرکے یا حلف نامہ دے کر اپنی شناخت ثابت کریں۔ کیلی فورنیا کی ریاستی اسمبلی کے لیے 27 سال تک انتخابات لڑنے والی ڈیمو کریٹک رہنما گیل پیلیریئن کہتی ہیں کہ ایسے افراد جو حال ہی میں وفات پانے والے اپنے کسی مرحوم دوست یا خاندان کے فرد کی جگہ ووٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں اموات کے ریکارڈ کی تازہ ترین فہرست کے مطابق پکڑا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:ٹرمپ کے الیکشن جیتنے پر عمران خان کی رہائی کی بات میں صداقت نہیں، امریکا

ان کا کہنا ہے کہ ایسے افرادجو کسی اور کی جگہ ووٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں اس خطرے کا سامنا ہوتا ہے کہ شاید وہ جس کا ووٹ ڈال رہے ہین تو انسے پولنگ اسٹیشن پر کوئی جانتا ہوگا۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ فرد بعد میں اپنا ووٹ ڈالنے کی کوشش کرے گا۔

سال 2020 کے الیکشن کے نتائج کے بعد سوشل میڈیا پر ان دعوؤں کی بھرمار دیکھی گئی کہ مردہ لوگوں نے ووٹ ڈالے، لوگوں نے دو دو بار ووٹ ڈالے اور بہت سے ووٹوں کو پھاڑ کر پھینک دیا گیا۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس قسم کے دعویٰ کیے تھے اور وہ اب تک ان دعوؤں کو بڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ لیکن ان میں زیادہ تر الزامات جھوٹے ثابت ہوئے۔

خبر رساں ادارے ’ایسو سی ایٹڈ پریس‘ کی جانب سے کانٹے کے مقابلے کی ریاستوں میں ووٹر فراڈ کی تحقیقات نے ظاہر کیا کہ لاکھوں ووٹروں میں محض 475 ووٹر فراڈ کیس سامنے آئے۔ یہ تعداد اتنی نہیں تھی کہ الیکشن کا نتیجہ پر کوئی بھی اثر ڈال سکتی تھی۔ اے پی کے جائزے نے ظاہر کیا کہ جعلی ووٹوں کے معاملے پر کسی کے درمیان کوئی سازشی قسم کا تعاون نہیں ہوا تھا۔ ہر کیس میں ملوث افراد نے اپنی اپنی ذاتی سطح پر اضافی ووٹ ڈالے۔

ایک کیس میں یہ بات سامنے آئی کہ ایک شخص نے اس غلطی کی بنا پر ووٹ ڈالا کہ ضمانت پر رہا لوگ بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ ایک اور کیس میں ایک خاتون پر شک تھا کہ انہوں نے اپنی مرحومہ والدہ کی جگہ ووٹ ڈالا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp