حکومت نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے تینوں سروسز چیفس کی مدت ملازمت 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کر دی ہے جبکہ ترمیمی بل کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھا کر 33 کر دی ہے جو بشمول چیف جسٹس 34 ہوجائے گی۔ یہ تعداد اس سے قبل آئین میں دی گئی تعداد یعنی 17 سے دگنی ہوگی ہے۔
ایسی ترمیم کے پس پردہ محرکات کیا ہو سکتے ہیں اور کیا حکومت نے اس سلسلے میں اپنی اتحادی اور حزب اختلاف کی جماعتوں سے مشاورت بھی کی ہےان سوالوں کے جواب کے لیے وی نیوز نے مختلف شخصیات سے گفتگو کی۔
حکومت کو مدت پوری نہ کرسکنے کا خوف ہے، کامران مرتضیٰ
جمیعت علمائے اسلام کے سینیٹر اور معروف قانون دان کامران مرتضیٰ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ججز کی تعداد اور سروسز سربراہان کی مدت ملازمت میں توسیع کا ارادہ حکومت کی اپنی مدت پوری کرنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اس حکومت کو خوف ہے کہ یہ اپنی مدت پوری نہیں کر پائے گی جس کی وجہ سے وہ یہ سب کچھ کرتی نظر آرہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کامران مرتضیٰ نے کہا کہ دنیا بھر میں کہیں بھی اتنی بڑی تعداد میں ججز نہیں ہوتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کو ہی دیکھ لیں وہاں بھی اتنی بڑی تعداد میں ججز نہیں ہیں۔ انہوں نے طنزاً کہا کہ ایسا ہے تو پھر حکومت کو چاہیے کہ اپنے سارے اراکینِ پارلیمان کو ججز قرار دے دے۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ایسے قانون کے بارے میں پارٹی کا لائحہ عمل مشاورت کے بعد طے ہو گا اور ابھی مجھے پیغام موصول ہوا تو میں نے اسے مولانا فضل الرحمٰن کو ارسال کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب ہماری جماعت اس پر غور و خوض کرے گی اور اس پر ردعمل دے گی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے اس قانون سازی کو 26 ویں آئینی ترمیم کی توہین قرار دیا ہے۔ کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ایسے کسی قانون کے بارے میں جمیعت علمائے اسلام سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔
ترمیم پارلیمان کا حق ہے مگر منطق سمجھ نہیں آتی، بیرسٹر علی ظفر
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اور معروف قانون دان بیرسٹر علی ظفر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ججز کی تعداد میں اضافہ اور سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کی جا رہی ہے تو یہ پارلیمان کا حق ہے لیکن کوئی بھی قانون سازی اگر کسی کو فائدہ دینے کے لیے کی جاتی ہے تو وہ مشکوک ہو جاتی ہے جس سے حکومت کی نیت میں خرابی نظر آتی ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف اس قانون سازی کی مخالفت کرے گی کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے کسی قانون کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہر قانون سازی کی کوئی منطق ہونی چاہیے جو اس میں ہمیں نظر نہیں آتی۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے دیگر ممالک میں ججوں کی اتنی بڑی تعداد نہیں اور اگر ایسا کیا جاتا ہے تو وہ جج قومی خزانے پر بوجھ ہوں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے پاس کام ہو گا نہیں اور وہ بیٹھے رہیں گے اور نچلی سطح پر تبدیلی لانے کی بجائے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانا بھی بظاہر غیر منطقی بات لگتی ہے۔
سروسز چیف کی مدت ملازمت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پارلیمان نے بہت سوچ سمجھ کر ان کی مدت ملازمت 3 سال متعین کی تھی اور اب اگر اس کو 5 سال کر دیا جاتا ہے تو اس سے ادارے کے اندر مسائل جنم لیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 3 سال ایک معقول مدت ہے جبکہ 5 سال بہت لمبا عرصہ ہو جائے گا۔
ججز کی تعداد بڑھانا خوش آئند ہے، میاں رؤف عطاء
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نو منتخب صدر میاں رؤف عطاء نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ججوں کی تعداد میں اضافہ خوش آئند ہے۔
میاں رؤف عطاء نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ بھارت کی آبادی ہم سے زیادہ ہے اور وہاں ججوں کی تعداد اتنی نہیں ہے لیکن ایک بار زیر التوا مقدمات کی تعداد کم ہو جائے تو پارلیمنٹ دوبارہ قانون سازی کے ذریعے اسے کم بھی کر سکتی ہے اور میرے خیال سے ہمیں اس ترمیم کو شک کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سروسز چیفس کی مدت ملازمت بڑھانے سے متعلق بات ان کے علم میں نہیں اس لیے وہ اس پر بات نہیں کریں گے۔