سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے تمام 6 بل قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی کے دستخطوں کے بعد قانون کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ پہلے بل میں سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھا کر 34 کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ مقدمات کے بیک لاگ کو دور کیا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ رجسٹریز سالہا سال خالی رہتی ہیں، ججوں کی تعداد سوچ بچار کے بعد بڑھائی، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ
قائم مقام صدر مملکت سید یوسف رضا گیلانی نے پیر اور منگل کی درمیان شب سپریم کورٹ نمبر آف ججز (ترمیمی) بل 2024، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر (ترمیمی) بل 2024 اور اسلام آباد ہائی کورٹ (ترمیمی) بل 2024 سمیت تمام 6 بلز پر دستخط کر دیے ہیں، جس کے بعد یہ باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔
قبل ازیں پیر کو ایوان زیریں اور ایوان بالا نے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے پیش کیے گئے بلوں کی منظوری دی تھی۔ ان میں سے پہلے بل میں سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھا کر 34 کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا تاکہ مقدمات کے بیک لاگ کو دور کیا جاسکے۔
مقاصد اور وجوہات کے مطابق ’سپریم کورٹ آف پاکستان میں ججوں کی تعداد سپریم کورٹ (ججوں کی تعداد) ایکٹ 1997 کے تحت مقرر کی جانی ہے ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے علاوہ ججوں کی تعداد 16 ہے۔ پاکستان میں قانونی چارہ جوئی میں مسلسل اضافے اور زیر التوا مقدمات میں کمی کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔
مذکورہ بالا وجوہات کی روشنی میں چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 16 سے بڑھا کر 33 کرنے کی تجویز ہے۔
بل کی نمایاں خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر قانون نے ایوان زیریں میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ترمیمی بل کے تحت ججوں کی تعداد بڑھا کر 34 کی جاسکتی ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اس اقدام کا مقصد سپریم کورٹ میں مقدمات کے بیک لاگ سے نمٹنا ہے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ججوں کی تعداد کو وقت کی بنیاد پر ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے۔
اس ترمیم سے سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھ کر 34 ہو جائے گی، تاکہ مقدمات کے بیک لاگ کو کلیئر کیا جا سکے اور 26 ویں ترمیم کے بعد ہمارے پاس آئینی بینچ بنانے کے لیے ججز موجود ہوں۔
اس کے علاوہ وزیر نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 میں ترمیم کے لیے ایک بل پیش کیا، جس کا مقصد 26 ویں آئینی ترمیم میں کیے گئے اضافے کو شامل کرنا ہے، جس میں آئینی بینچوں کا تعارف بھی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں آج جمہوریت کو بادشاہت میں تبدیل کردیا گیا، پی ٹی آئی کا قانون سازی پر ردعمل
بل میں آئین کے آرٹیکل 191 اے یعنی آئینی بنچوں کی تشکیل کو دیباچہ میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 191 اور 191 اے مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو آئینی بینچوں سمیت سپریم کورٹ کے طریقہ کار اور طریقہ کار کا انتظام کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔
مزید برآں بل میں ایک اور ترمیم کی تجویز پیش کی گئی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ یہ قانون 26 ویں آئینی ترمیم ایکٹ 2024 کے ساتھ ہی نافذ العمل ہو۔
اس کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ (ترمیمی) بل 2024 بھی منظور کیا گیا جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد 9 سے بڑھا کر 12 کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
وزیر قانون نے کہا کہ اسلام آباد میں قانونی چارہ جوئی میں مسلسل اضافے کے پیش نظر اور چونکہ یہ ایک ثقافتی اور کاروباری مرکز کی حیثیت اختیار کر رہا ہے اور اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی آبادی سے بھی یہ واضح ہے کہ مزید قانونی چارہ جوئی سے ہائی کورٹ پر بوجھ پڑے گا، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔
وزیر قانون کی جانب سے بل پیش کیے جانے کے فوری بعد شدید مخالفت کے باوجود ووٹنگ کی گئی۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حکمران اتحاد ملک کے عدالتی ڈھانچے میں اصلاحات لارہا ہے جس میں تازہ ترین 26 ویں آئینی ترمیم ہے جس نے چیف جسٹس کی تقرری کے طریقہ کار کو تبدیل کیا، عہدے کی مدت کا تعین کیا اور آئینی بینچ تشکیل دیے۔
یہ بھی پڑھیں:آرمی ایکٹ ترمیمی بل اور ججوں کی تعداد بڑھانے کے پس پردہ محرکات کیا ہوسکتے ہیں؟
دریں اثنا وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے پاکستان (آرمی، ایئر فورس، نیوی) ایکٹ ترمیم، 2024 میں ترمیم کا بل دونوں ایوانوں میں پیش کیا گیا۔
ان ترامیم کا مقصد پاکستان آرمی ایکٹ 1952، پاکستان نیوی آرڈیننس 1961 اور پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953 کو چیف آف آرمی اسٹاف، چیف آف دی نیول اسٹاف اور چیف آف ایئر اسٹاف کی زیادہ سے زیادہ مدت کے ساتھ ہم آہنگ کرنا اور مذکورہ بالا قوانین میں یکسانیت کے لیے نتیجہ خیز ترامیم کرنا ہے۔
آرمی چیف، سی این ایس اور سی اے ایس سمیت سروسز چیفس کی ریٹائرمنٹ کی عمر اور سروس کی حد کے بارے میں دستاویز میں کہا گیا ہے کہ سینیئر ملٹری افسران کے لیے مقرر کردہ معیار آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے سربراہان پر ان کی تعیناتی، دوبارہ تقرری اور یا توسیع کی مدت کے دوران لاگو نہیں ہوں گے۔
اس کے علاوہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953 اور پاکستان نیوی ترمیمی بل 1961 بھی منظور کیا۔
پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کے بل میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ ایکٹ کی دفعہ 8 اے میں ذیلی دفعہ (1) میں ‘تین (03)’ کے لفظ کی جگہ ‘پانچ (05)’ کا لفظ استعمال کیا جائے گا۔
اسی طرح اس بل کا مقصد سروس چیف کی دوبارہ تقرری کی مدت میں اضافہ کرنا یا ان کی مدت ملازمت کو 5 سال تک بڑھانا ہے، جس میں ایکٹ کی دفعہ 8 بی میں ترمیم کی گئی ہے۔
اس میں کہا گیا ہے، ‘مذکورہ ایکٹ کی دفعہ 8 بی میں، ذیلی دفعہ (1)-10 میں ‘تین (03)’ کے لفظ کی جگہ ‘پانچ (05)’ کا لفظ استعمال کیا جائے گا۔
مزید برآں، حکومت نے سیکشن 8 سی میں ترمیم کی بھی تجویز پیش کی، جو ریٹائرمنٹ کی عمر ، جو 64 سال ہے اور سروس چیفس کی سروس کی حد سے متعلق ہے۔
مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ اس ایکٹ کے تحت بنائے گئے قواعد و ضوابط کے تحت کسی جنرل کے لیے مقرر کردہ ریٹائرمنٹ کی عمر اور سروس کی حد کا اطلاق چیف آف آرمی اسٹاف پر ان کی تعیناتی، دوبارہ تقرری یا توسیع کی مدت کے دوران نہیں ہوگا۔ اس مدت کے دوران چیف آف آرمی اسٹاف پاک فوج میں جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہیں گے۔
بلز کی منظوری کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اجلاس منگل کی صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا۔