امریکا کے صدارتی انتخابات دنیا بھر میں دلچسپی کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں اور پاکستان میں بھی لوگ اس میں بڑی دلچسپی لے رہے ہیں اور قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ ڈیموکریٹ امیدوار کمالا ہیرس اور ریپبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ میں سے کسی کی جیت کے ساتھ پاکستان کے سیاسی حالات میں بدلاؤ آ سکتا ہے۔ تاہم امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا کہنا ہے کہ امریکا اپنی تزویراتی ضروریات کے تحت مختلف ملکوں کے ساتھ تعلقات قائم کرتا ہے۔
وی نیوز کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے حسین حقانی نے کہا کہ امریکا جب تک افغانستان میں موجود تھا تو پاکستان اس کی تزویراتی ضرورت تھا کیونکہ پاکستان کے رستے اس کا فوجی ساز و سامان جاتا تھا، اب امریکا کی وہ ضرورت بھی ختم ہو گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ امریکا کے بھارت کے ساتھ تعلقات بہت گہرے ہو چکے ہیں اور اب ہمیں وہ اہمیت نہیں ملے گی جو ملا کرتی تھی لیکن ہم اس نفسیاتی صورتحال سے باہر نہیں آ رہے کہ کوئی ہمیں بہت توجہ دیتا تھا اور اب نہیں دے رہا۔
حسین حقانی نے کہا کہ اس وقت پاک امریکا تجارت کا حجم 6 یا 7 ارب ڈالر سے زائد نہیں اور اس سے زیادہ حجم امریکا اور مراکش کے درمیان تجارت کا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی انتخابات نومبر کے پہلے منگل کو ہی کیوں ہوتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ کچھ چیزیں امریکا میں حکومتوں کی تبدیلی سے نہیں بدلتیں۔ مثلاً پاکستان میں امریکی سفارتخانہ برقرار رہے گا، پاکستانی فوج کے امریکا کے ساتھ تعلقات برقرار رہیں گے، کچھ پاکستانی، پاکستان اور امریکا کے درمیاں سفر بھی کرتے رہیں گے، اس کے علاوہ کوئی اور بڑا اثر فوری طور پر نہیں پڑنے والا۔
اسپانسرشپ ویزے کے خواہشمند پاکستانیوں کے لیے رکاوٹ کون ثابت ہوسکتا ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ یہ ہو سکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اگر صدر منتخب ہوتے ہیں تو وہ امیگریشن کو بند کرنے کی کوشش کریں جس سے وہ پاکستانی جنہوں نے اپنے رشتے داروں کے ویزے اسپانسر کیے ہوئے ہیں وہ متاثر ہوجائیں۔
کملا اور ٹرمپ میں سے کون فلسطین کا ساتھ دے گا؟
کملا ہیرس مشرق وسطٰی کے بارے میں مختلف خیالات رکھتی ہیں، جس سے ہو سکتا ہے کہ پاکستانی ناراض ہوں کہ وہ فلسطین کا ساتھ کیوں نہیں دے رہیں لیکن وہ تو ڈونلڈ ٹرمپ بھی نہیں دیتے۔
مزید پڑھیے: امریکی انتخابات میں ووٹرز کا فراڈ نتائج پر اثرانداز کیوں نہیں ہوسکتا؟
انہوں نے کہا کہ امریکی انتخابات کے اثرات ویسے تو پوری دنیا پر مرتب ہوں گے لیکن امریکی انتخابات میں پاکستان کوئی ایشو نہیں نہ ہی اس بارے میں وہاں کوئی بات ہو رہی ہے۔
کیا ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کو رہائی دلوائیں گے؟
اس بارے میں بات کرتے ہوئے حسین حقانی نے کہا کہ میں کسی کی خوش فہمیاں ختم نہیں کرنا چاہتا۔ وہ اگر خوش فہمیوں میں رہنا چاہتے ہیں تو رہیں۔ مجھے سب سے زیادہ پریشانی اس بات سے ہوتی ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے اور انہوں نے پی ٹی آئی کے دوستوں کی خواہش پوری نہ کی تو پھر ان پر کیا گزرے گی۔
انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے علاوہ کسی کا خیال نہیں رکھتے۔ آج ان کی سابقہ کابینہ کا ہر فرد ان کے خلاف بول رہا ہے۔ اگر ان کو لگا کہ عمران خان کی مدد کرنے سے ان کو فائدہ مل سکتا ہے تو وہ کریں گے لیکن ان کو کیا فائدہ مل سکتا ہے۔ دوسری طرف عمران خان کہتے ہیں کہ میں بڑا اصولی آدمی ہوں، میں امریکا کو ’ایبسولوٹلی ناٹ‘ کہنے والا آدمی ہوں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ عمران خان کی مدد سے ڈونلڈ ٹرمپ کو کیا فائدہ حاصل ہو گا۔
’دل چاہتا ہے عمران خان رہا ہوجائیں‘
حسین حقانی نے کہا کہ بعض یوٹیوبرز نے کاروبار بنا لیا ہے، روز پیشنگوئی کرتے ہیں، کل سورج نکلے گا عمران خان رہا ہو جائیں گے، کل بارش ہو گی عمران خان رہا ہو جائیں گے، اور میرا دل بھی یہی چاہتا ہے کہ وہ رہا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی سیاسی قیدی نہیں ہونا چاہیے لیکن یہ خواہش کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے کی وجہ سے ایسا ہو جائے گا بس خواہش ہی ہے۔
’اوورسیز پاکستانی عمران خان حکومت کی برطرفی سہہ نہیں پائے‘
انہوں نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے پاکستان میں رشتے دار متمول گھرانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ سیاسی طور پر متحرک نہیں تھے لیکن اس سے پہلے ان کی ایک بڑی تعداد جنرل پرویز مشرف کی حامی تھی۔ ان لوگوں نے ایک سادہ سا فارمولا طے کر لیا ہے کہ پاکستان میں فلاں فلاں کی وجہ سے ساری خرابی ہے وہ چور ڈاکو ہے ورنہ پاکستان تو بڑا اچھا ہے اور ہم بھی بڑے اچھے ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکی انتخابات: ٹرمپ کا سوئنگ اسٹیٹ مشی گن میں مسلم عرب اکثریتی علاقے کا دورہ
حسین حقانی نے کہا کہ اب اس بیانیے کے ساتھ انہوں نے عمران خان کا ساتھ دیا۔ عمران خان کی حکومت آئی اور چلی گئی۔ یہ اس حکومت کے جانے سے جو انہیں مایوسی ہوئی اس سے ڈیل نہیں کر پا رہے۔ ان کو یاد نہیں کہ نواز شریف بے نظیر کی حکومتیں ختم کی گئیں، یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیجا گیا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان سے قبل بیرونِ ملک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے حامی تھے اور پہلی بار انہوں نے کسی سیاسی شخصیت کے ساتھ دل لگایا لیکن اس کے چلے جانے کے صدمے پر بہت متحرک ہوچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ لیکن برطانیہ میں جہاں لاکھوں پاکستانی بستے ہیں، ان کا احتجاج کبھی 500 یا 1000 افراد سے زیادہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک اقلیت ہیں لیکن بہت فعال اقلیت ہیں جو شور کو شعور سمجھتے ہیں۔
’پاکستان میں شہری حقوق کم ہوئے ہیں‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں شہری حقوق، انسانی حقوق پہلے سے کم ہوئے ہیں اور ریاست کی جانب سے سختیاں بڑھی ہیں جو پہلے ہوا وہ بھی غلط تھا جو آج ہو رہا ہے وہ بھی غلط ہے اور انسانی حقوق کی پاسداری میں پاکستان کبھی بھی اچھے ریکارڈ کا حامل نہیں رہا۔ لیکن اس کا صرف ایک حل ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ مل کر یہ فیصلہ کریں کہ انہیں انسانی حقوق کی پاسداری کرنی ہے اور سب ایک دوسرے کو برابر کا سمجھنا ہے۔ ہمیں جمہوری اختلافِ رائے کے طور طریقے سیکھنے ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے: امریکی انتخابات میں بھی دھاندلی کے الزامات لگتے ہیں، کیا پاکستان پر سوال اٹھانا بنتا ہے؟ وزیر دفاع خواجہ آصف
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے حامی ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ان پر جھوٹے الزام لگاتی ہے، دوسری طرف کہتے ہیں کہ دوسروں پر اسٹیبلشمنٹ نے جو الزام لگائے وہ سچے ہیں۔
پاکستان کی مجبوری کہ اس کی سب سے بڑی مارکیٹ مغربی ممالک ہیں
’مغربی ممالک پاکستانی برآمدات کی بڑی مارکیٹ‘
اس وقت پاکستان کے تعلقات امریکا سے زیادہ بہتر ہیں یا روس چین بلاک کے ساتھ، اس سوال کے جواب میں حسین حقانی نے کہا کہ پاکستان کی ایک مجبوری ہے کہ اس کے بیشتر تجارتی تعلقات مغربی ممالک کے ساتھ ہیں اور وہی پاکستانی برآمدات کی منڈی ہے، جبکہ چین کے ساتھ ہماری درآمدات زیادہ ہیں۔ بعض معاملات میں ہمارے چین کے ساتھ تعلقات اہم ہیں اور بعض معاملات میں امریکا کے ساتھ۔ لیکن ہمیں اپنے تعلقات کی اصل گتھی جو سلجھانی ہے وہ ہمارے بھارت کے ساتھ تعلقات ہیں۔
پاکستان کے سفارتی تذبذب کی بڑی وجہ
حسین حقانی نے کہا کہ چین چونکہ بھارت کے خلاف ہمارا ساتھ دیتا ہے اس لیے اس کے ساتھ ہمارے تعلقات زیادہ ہیں۔ لیکن مغربی ممالک کے برعکس، پاکستانی شہری چین میں مستقل آباد نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکی صدارتی انتخابات میں مقابلہ برابر ہوا تو پھر کیا ہوگا؟
انہوں نے کہا کہ ہماری سفارتی پالیسیوں میں تذبذب کی بڑی وجہ بھارت کے ساتھ کشیدگی ہے کیونکہ بطور ایک سیکیورٹی اسٹیٹ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بھارت کے مقابلے میں ہمارے ساتھ کون ہے۔ اگر بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہو جائیں تو پاکستان سیکیورٹی اسٹیٹ سے ایک تجارتی ملک بن جائے گا جو چین کے ساتھ بھی تجارت کرے گا، امریکا روس اور بھارت کے ساتھ بھی۔
حسین حقانی کب پاکستان واپس آ رہے ہیں؟
حسین حقانی نے کہا کہ ان پر مقدمات ختم ہو چکے ہیں، میمو گیٹ اسکینڈل بھی ہوا میں تحلیل ہو گیا، اس کا جھوٹ بھی ثابت ہو گیا لیکن میرا کام وہاں ہے جہاں میں بیٹھا ہوں، میرا معاملہ صدر زرداری کے صدر ہونے یا نہ ہونے سے نہیں بلکہ جہاں میرا جھگڑا تھا وہ قائم ہے۔ پاکستان آنا یا نہ آنا اب ایک ذاتی فیصلہ ہے، جب اچھا موقع ہوگا ضرور حاضر ہو جاؤں گا۔