الہ آباد ہائیکورٹ کی جانب سے بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں اسلامی مدارس پر پابندی کے فیصلے کو بھارتی سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: آسام، انتہا پسند بی جے پی حکومت نے 1300 مدارس کو اسکولوں میں بدل دیا
ہائیکورٹ نے مذکورہ پابندی چند ماہ قبل لگائی تھی تاہم سپریم کورٹ نے منگل کو وہ فیصلہ کالعدم قرار دے دیا جس سے ہزاروں طلبہ اور اساتذہ کو ریلیف ملا ہے۔
سپریم کورٹ نے سنہ 2004 کے مدارس کنٹرول والے ایک قانون کو نمٹاتے ہوئے کہا کہ یہ آئین میں درج ملک کے سیکولر اصولوں کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت مدارس میں پڑھنے والے تمام طلبا کو روایتی تعلیمی اداروں میں منتقل کیے جانے کا حکم دیا گیا تھا۔
مارچ کے حکم کو ایک طرف رکھ کر سپریم کورٹ نے شمالی ریاست میں 25 ہزار مدارس کو کام کرنے کی اجازت دے دی جس سے 27 لاکھ طلبا اور 10 ہزار اساتذہ کو ریلیف ملا۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے عدالت میں کہا کہ یہ عمل ریاست کی مثبت ذمے داری کے مطابق ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جائے کہ بچوں کو مناسب تعلیم ملے۔
اس کے جواب میں ریاستی حکومت کی طرف سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
مزید پڑھیے: مریم نواز نے اسموگ کے خاتمے کے لیے بھارت کے ساتھ سفارتکاری کا عندیہ دے دیا
وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جو اتر پردیش پر بھی حکومت کرتی ہے شمال مشرقی ریاست آسام میں بھی سینکڑوں مدرسوں کو روایتی اسکولوں میں تبدیل کر رہی ہے۔
مسلمانوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بی جے پی کے کچھ ارکان اور اس سے وابستہ افراد پر اسلام مخالف و نفرت انگیز تقریریں کرنے اور مسلمانوں کی ملکیتی جائیدادوں کو منہدم کرنے کا الزام لگایا ہے۔
مودی اور بی جے پی بھارت میں مذہبی امتیاز برتے جانے کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ تمام برادریوں کی ترقی کے لیے کام کرتے ہیں۔