یومِ اقبال کے موقع پر ہمیں اس عظیم شخصیت کی فکری، فلسفیانہ اور ادبی جہتوں کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے جنہوں نے نہ صرف برصغیر بلکہ پورے عالمِ اسلام کے لیے ایک نیا فکری افق متعین کیا۔
یہ بھی پڑھیں:اسلام آباد میں یادگارِ اقبال
علامہ محمد اقبال کی شاعری اور نثر میں ایک خاص پیغام پوشیدہ ہے، جو امتِ مسلمہ کے اتحاد، خود مختاری اور فکری بیداری کو فروغ دینے کا درس دیتا ہے۔ ان کی فکر اور فلسفہ محض نظریاتی مباحث تک محدود نہیں رہا، بلکہ اس نے عملی زندگی میں بھی کئی اہم پہلوؤں کو جنم دیا، جن میں سے ایک سعودی عرب کے بانی شاہ عبد العزیز کے ساتھ ان کا فکری تعلق ہے۔
اقبال کی زندگی کا ہر پہلو ایک الگ داستان بیان کرتا ہے۔ ان کی پیدائش اور خاندانی پس منظر کو دیکھیں تو وہ کشمیری برہمنوں کی نسل سے تعلق رکھتے تھے، جنہوں نے اسلام قبول کیا اور اسلامی علوم وفنون میں نمایاں مقام حاصل کیا۔
ان کے خاندان کی علمی وفکری جڑیں گہری تھیں، اور یہی وجہ ہے کہ اقبال کے ذہن میں ابتدا ہی سے علم و حکمت کی جستجو پیدا ہوئی۔ سیالکوٹ میں ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے لاہور کا رخ کیا، جہاں انہوں نے فلسفہ اور ادب میں مہارت حاصل کی۔
یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب میں علامہ اقبال کیوں مقبول ہیں؟
ان کی علمی جستجو انہیں یورپ لے گئی، جہاں انہوں نے کیمبرج اور میونخ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ان کے تحقیقی مقالے “Development of Metaphysics in Persia” نے انہیں عالمی سطح پر متعارف کرایا اور ان کے فلسفیانہ فکر کی گہرائی کو واضح کیا۔
اقبال کی زندگی کے اہم پہلوؤں میں سے ایک ان کا عملی سیاسی اور سماجی میدان میں اثر ورسوخ ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگانے اور انہیں اپنی فکری و تہذیبی میراث پر فخر کرنے کا درس دیا۔
ان کا نظریہ خودی اور ملت اسلامیہ کے اتحاد پر زور دیتا ہے۔ یہ نظریات محض خیالات کی حد تک محدود نہیں رہے بلکہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی شعور کو بھی جلا بخشی۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کو تحریک پاکستان کے فکری رہنما کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
اقبال کی شخصیت کی ایک اور اہم جہت ان کا عرب دنیا، بالخصوص سعودی عرب کے بانی شاہ عبد العزیز کے ساتھ فکری تعلق ہے۔ یہ تعلق اس وقت زیادہ نمایاں ہوا جب 1924 میں شاہ عبد العزیز نے حجاز میں اپنی دھاک بٹھائی۔ اس وقت برصغیر کے علماء اور عوام میں اس معاملے پر گہری بحث چھڑ گئی۔
کچھ علما نے شاہ عبد العزیز کی حمایت کی جبکہ دیگر نے مخالفت کرتے ہوئے سخت فتوے جاری کیے۔ اقبال نے ان نازک حالات میں شاہ عبد العزیز کی حمایت کرتے ہوئے ان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ شاہ عبد العزیز ایک روشن خیال اور بصیرت افروز حکمران ہیں جو حرمین شریفین کی حفاظت اور خدمت کے اہل ہیں۔
اقبال نے اس موقع پر اپنی بصیرت کا ثبوت دیا اور مسلمانوں کو فرقہ واریت اور اندرونی خلفشار سے بچانے کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیں:’ایسا لگا کہ میں اقبال ہوں اور خود کو پینٹ کر رہا ہوں‘
اقبال کا یہ مؤقف ان کے مخالفین کو ناگوار گزرا، اور مولوی دیدارعلی نے ان کے خلاف فتویٰ جاری کیا۔ اس فتوے نے ملک بھر میں ایک نئی بحث کو جنم دیا۔ تاہم، اقبال کے حامیوں، خاص طور پر سید سلمان ندوی نے اس فتویٰ کی سخت مذمت کی اور اقبال کے موقف کو درست قرار دیا۔
اقبال کے خیالات اور ان کی بصیرت کا یہ پہلو یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ نہ صرف ایک فلسفی اور شاعر تھے بلکہ ایک ایسے رہنما بھی تھے جو امت کے مسائل کو گہری نظر سے دیکھتے اور ان کے حل کے لیے عملی تجاویز پیش کرتے تھے۔
اقبال نے شاہ عبد العزیز کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے لیے فارسی میں ایک قصیدہ بھی لکھا، جو ان کی فکری گہرائی اور بصیرت کا مظہر ہے۔ اس قصیدے میں اقبال نے امتِ مسلمہ کے اتحاد اور اسلامی تشخص کی اہمیت پر زور دیا۔
انہوں نے شاہ عبد العزیز کو ایک ایسے رہنما کے طور پر پیش کیا جو اسلامی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے امت کو نئی بلندیوں تک لے جا سکتے ہیں۔ یہ قصیدہ اقبال کی شاعری کی اس خصوصیت کا مظہر ہے جو بظاہر ذاتی تحسین سے بڑھ کر ایک وسیع فکری پیغام کو اجاگر کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:غزہ مزاحمت اور فکرِ اقبال
اقبال کے ان خیالات نے نہ صرف برصغیر بلکہ پورے عالم اسلام میں گہرا اثر ڈالا۔ ان کی شاعری اور نثر میں یہ پیغام واضح طور پر موجود ہے کہ مسلمانوں کو اپنی فکری، سیاسی اور سماجی زندگی میں خودمختاری اور آزادی کے اصولوں کو اپنانا چاہیے۔
اقبال کی فکر اور شاہ عبد العزیز کی قیادت نے امتِ مسلمہ کے لیے ایک نئے دور کی بنیاد رکھی۔ دونوں شخصیات نے اپنے اپنے میدان میں نمایاں کردار ادا کیا اور ان کی خدمات آج بھی مسلم دنیا کے لیے مشعل راہ ہیں۔
اقبال اور شاہ عبد العزیز کا فکری تعلق اس بات کا ثبوت ہے کہ فکری رہنمائی اور عملی قیادت ایک ساتھ مل کر امت کی ترقی اور خوشحالی کا راستہ ہموار کر سکتی ہیں۔
اقبال نے فکری میدان میں جو رہنمائی فراہم کی، شاہ عبد العزیز نے اسے عملی جامہ پہنایا۔ ان دونوں کی جدوجہد ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ مسلم دنیا کو اپنے مسائل کے حل کے لیے نہ صرف فکری طور پر مضبوط ہونا چاہیے بلکہ عملی میدان میں بھی خود مختاری اور اتحاد کی ضرورت ہے۔
یومِ اقبال ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ ہم اپنی فکری اور تہذیبی میراث کو زندہ رکھیں اور ان اصولوں کو اپنائیں جن کی بنیاد اقبال اور شاہ عبدالعزیز نے رکھی۔
ان دونوں شخصیات کی زندگیاں اس بات کا مظہر ہیں کہ ایمان، اتحاد اور جدوجہد کے ذریعے امتِ مسلمہ نہ صرف اپنے مسائل کا حل تلاش کر سکتی ہے، بلکہ دنیا میں ایک نمایاں مقام بھی حاصل کر سکتی ہے۔