کراچی کی جیل میں ڈیڑھ سال سے ڈکیتی کے الزام میں قید امبر جیل کو ہاسٹل سمجھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ دونوں میں بس فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں ہم بچوں اور گھر والوں سے دور رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
امبر کا کہنا تھا کہ جیل میں کمپیوٹر کورسز اور سلائی کڑھائی سمیت مختلف ہنر کی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جیل میں خواتین پر کوئی تشدد نہیں ہوتا۔
یہ بھی پڑھیں: کیا جیل کے باہر کھڑی چمچماتی گاڑی نتاشا دانش کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دیتی ہے؟
انہوں نے اردو میں ایم اے کیا ہے لیکن جیل میں آکر انہوں نے کمپیوٹر بھی سیکھا کیوں کہ ان کا کہنا تھا کہ وہ کمپیوٹر کے حوالے سے تھوڑی بہت شد بد تو رکھتی تھیں لیکن اس کی باقائدہ تربیت جیل میں آکر حاصل کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں جس کو جو سیکھنے کا شوق ہو وہ سیکھ سکتا ہے۔
امبر نے کیا جرم کیا؟
امبر کا کہنا تھا کہ ان کے 4 بچے ہیں جو ان کے شوہر کے پاس ہیں تاہم ان کے خلاف ڈکیتی کا مقدمہ تب بنا جب انہیں طلاق ہوئی اور انہوں نے اپنا سامان اٹھایا تو ان پر ڈکیتی کا الزام لگا دیا گیا۔
مزید پڑھیے: سینٹرل جیل کراچی کے 248 قیدیوں نے مختلف تعلیمی سرٹیفکیٹس حاصل کرلیے
انہوں نے کہا کہ ابھی ان کا کیس چل رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں تو جیل بھیج دیا جاتا ہے لیکن بچوں کی پرورش تو ماں کو ہی کرنی ہوتی ہے اور اگر ماں جیل میں ہوگی تو بچوں کا کیا ہوگا۔
انہوں نے عدلیہ سے درخواست کی کہ ان کا کیس جلد چلایا جائے۔