جب ایک صحافی نے زخمی میر مرتضیٰ بھٹو کو اسپتال پہنچایا

بدھ 13 نومبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں مشہور شخصیات کی موت ایسے انداز میں ہوئی کہ آج بھی اس ملک کے شہری اس کی اصل وجہ سے ناواقف ہیں۔ بظاہر حادثات کے باعث دنیا سے رخصت ہونے والی کئی شخصیات اپنے پیچھے سوالات چھوڑگئیں جن کاجواب نہ اب تک مل سکا ہے اور نہ ہی اس کے کبھی ملنے کا امکان ہے۔

انہی واقعات میں سے ایک میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا واقعہ بھی ہے جو آج تک ایک پر اسرار کیس ہے اور جس کے بارے میں کئی سوالات اب بھی جواب طلب ہیں۔

مرتضیٰ بھٹو کا آخری وقت کیسا گزرا اور انہیں کن حالات میں کس نے اسپتال پہنچایا اس حوالے سے عینی شاہد اور سینیئر صحافی اے ایچ خانزادہ نے پردہ اٹھایا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مرتضیٰ بھٹو کا قتل کیوں ہوا، کیا وہ اپنی بہن کو قتل کرنا چاہتے تھے؟

اے ایچ خانزادہ کہتے ہیں کہ 20 ستمبر 1996 کا واقعہ ہے میں کراچی میں روزنامہ جسارت کے لیے رپورٹنگ کیا کرتا تھا کہ ایک دن پولیس ذرائع سے اطلاع ملی کہ ڈی آئی جی ہاؤس پر شدید فائرنگ ہو رہی ہے، اس زمانے میں ڈی آئی جی شعیب سڈل ہوا کرتے تھے جو بعد میں مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے مقدمے میں ملزم بھی رہے اور اس کے بعد آئی جی سندھ اور پولیس ریفارمز کمیٹی کے سربراہ رہنے کے علاوہ وہ بہت سے عہدوں ہر بھی فائز ہوئے۔

سینیئر صحافی نے بتایا کہ ہم ساتھیوں کے ہمراہ ڈی آئی جی آفس اور مرتضیٰ بھٹو کی رہائشگاہ ’70 کلفٹن‘ کے لیے روانہ ہوئے تو کلفٹن 2 تلوار کے مقام پر ہمیں پولیس نے روک لیا اور ہمیں آگے جانے سے منع کردیا جس پر ہمیں محسوس ہوا کہ کچھ غیر یقینی سی صورت حال ہے، وہاں کچھ گاڑیاں موجود تھیں اور فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا  کچھ فوٹو گرافرز جو ہم سے پہلے وہاں موجود تھے ان کے کیمرے پولیس چھین چکی تھی جو کہ بعد ازاں ہم نے واپس دلوا دیے تھے۔

اے ایچ خانزادہ کے مطابق 2 تلوار پہنچ کر اور کیمرہ مینوں کو کیمرے واپس دلوانے کے دوران اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ یہ ڈی آئی جی آفس پر فائرنگ نہیں بلکہ کچھ افراد اور پولیس کے مابین فائرنگ ہو رہی ہے اور کچھ ہی دیر بعد گتھی مزید سلجھی کہ یہ فائرنگ مرتضیٰ بھٹو کے ساتھیوں کی پولیس کے ساتھ ہو رہی ہے جبکہ مرتضیٰ بھٹو زخمی ہو چکے ہیں۔

مزید پڑھیے: فاطمہ بھٹو کے ہاں بیٹے کی پیدائش، نام مرتضیٰ بھٹو رکھ دیا

سینیئر صحافی نے کہا کہ ہم معاملے کی طے تک پہنچنے کے لیے معلومات اکٹھی کر رہے تھے کہ اطلاع ملی کہ یہ جو گاڑی گزر رہی ہے اس میں مرتضیٰ بھٹو کو لے کر جا رہے ہیں اس گاڑی کا پیچھا کیا تو وہ 2 تلوار سے تھوڑا آگے مڈ ایسٹ اسپتال جو اب وجود نہیں رکھتا کے سامنے جا کر رک گئی اور میں بھی وہاں پہنچ چکا تھا جس گاڑی میں مرتضیٰ بھٹو کو لایا گیا وہ انہیں وہاں چھوڑ کر چلی گئی۔

اے ایچ خانزادہ بتاتے ہیں کہ وہاں مرتضیٰ زخمی حالت میں 2 افراد کے ساتھ فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے بعد ڈپٹی کمشنر کراچی جنوبی عارف الٰہی آگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مرتضیٰ بھٹو بڑے قد کے بھاری بھرکم انسان تھے اور ہم 4 افراد نے بمشکل انہیں اسٹریچر پر منتقل کیا اس وقت تک مرتضیٰ بھٹو ہوش میں تھے۔

جانتے بھی ہو یہ کون ہے؟

اے ایچ خانزدہ کے مطابق اسٹریچر کو گھسیٹ کر اسپتال کے دروازے تک پہنچے تو اسپتال انتظامیہ نے دروازہ بند کر دیا اور سندھی میں کہا کہ یہ پولیس کا معاملہ ہے آپ اسے یہاں سے لے جائیں۔ اے ایچ خانزادہ مزید بتاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ موجود ایک فرد نے گرل میں ہاتھ اندر ڈالا اور گیٹ بند کرنے والے کا گریبان پکڑ کر سندھی میں کہا کہ یہ دیکھ تو صحیح کون ہے، یہ ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹا میر مرتضیٰ بھٹو ہے اس کے بعد حیران ہوتے ہوئے اس شخص نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہونے کی اجازت دی۔

مرتضیٰ بھٹو اپنے والد اور بھائی بہنوں کے ساتھ۔

مڈ ایسٹ اسپتال بڑے لوگوں کی آرام گاہ

اے ایچ خانزادہ کے مطابق ہم لفٹ کے ذریعے دوسری منزل پہنچے اور وہاں سے آئی سی یو پہنچ کر پتا چلا کہ مڈ ایسٹ اسپتال میں آپریشن تھیٹر نہیں ہے اور یہ بھی پتا چلا کہ یہ تو بڑے لوگوں کی آرام گاہ ہے نہ کہ اسپتال وہاں ڈیوٹی پر آر ایم او تو ہوتا ہے لیکن چوٹ اگر لگ جائے تو او پی ڈی کا بھی بندوبست نہیں ہے اور نہ ہی او ٹی کا بندوبست ہے۔ اے ایچ خانزادہ کے مطابق ہم نے آئی سی یو نما کمرے میں مرتضیٰ بھٹو کو پہنچایا۔

جب مرتضیٰ بھٹو اسٹریچر سے بیڈ پر خود منتقل ہوئے

اے ایچ خانزادہ مزید بتاتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ مرتضیٰ بھٹو اسٹریچر سے بیڈ پر خود منتقل ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر انتظامیہ کو پتا چلتا کہ یہاں ایک صحافی بھی ہے تو ممکن تھا کہ مجھے وہاں سے نکال باہر کیا جاتا اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے وہاں پڑا ہوا ایک سفید گاؤن پہن لیا اور اسٹیتھواسکوپ گلے میں ڈال لیا تا کہ یہ لگے کہ میں ڈاکٹر ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے بطور صحافی بہت ساری ایمرجنسیز دیکھی تھیں تو وہاں جو ڈاکٹر تھے انہیں میں نے کہا کہ آپ انہیں ڈرپ لگا دیجیے لہٰذا ڈرپ لگا دی گئی۔

مزید پڑھیں: اگر بے نظیر بھٹو کے قتل میں طالبان ملوث تھے تو کارساز پل کی لائٹس کس نے بند کروائیں؟

اے ایچ خانزادہ کے مطابق اس اسپتال میں سہولیات نہ ہونے کے باعث یہ معاملہ چل نہیں پایا وہاں بڑے بڑے ڈاکٹر بھی آئے لیکن 40 منٹوں تک مرتضیٰ اس تکلیف کی کیفیت میں مبتلا رہے چہرے پر لگنے والی گولی جو گردن سے نکلی تھی اس سے خون اندر جا رہا تھا۔

وقت کی وزیر اعظم بنا چپل اسپتال پہنچی

اے ایچ خانزادہ کے مطابق شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو جب اطلاع ملی تو وہ مڈ ایسٹ اسپتال پہنچیں اور وہ اس وقت ننگے پیر تھیں۔ یہ ایک بے بس بہن کی اہنے بھائی سے وہ ملاقات تھی جس میں شاید ان کا بہت سی باتیں کرنے کا دل کر رہا ہو لیکن وہ بھائی اپنی بہن کے پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ چکا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جس وقت بے نظیر آئیں تو میں نے وہاں موجود تمام لوگوں کو کہا کہ ہمیں یہاں سے باہر چلے جانا چاہیے اور ایسا ہی ہوا سب باہر نکلے دروازہ بند کردیا گیا تاکہ بہن اپنے بھائی کی لاش کے ساتھ کھل کر وقت گزار سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp