پانامہ پیپرز کیس اور جے آئی ٹی کی حقیقت کیا تھی؟ حسین نواز نے خاموشی توڑدی

بدھ 13 نومبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بڑے صاحبزادے حسین نواز نے دعویٰ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس اعجاز افضل خان نے، جو پاناما پیپرز کیس کی سماعت کرنیوالے بینچ کا حصہ تھے، 2006 سے نواز شریف کی مبینہ تنخواہ کی وصولی کے شواہد سے متعلق حقائق کو غلط انداز میں پیش کیا۔

روزنامہ دی نیوز کو دیے گئے ایک ٹیلیفونک انٹرویو میں، حسین نواز نے جسٹس اعجاز افضل خان کے پاناما فیصلے سے متعلق دعوؤں کے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ متعلقہ کمپنی پاناما پیپرز کیس سے پہلے اچھی طرح بند ہو چکی تھی اس لیے مبینہ طور پر قابل وصول تنخواہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: حسن نواز اور حسین نواز پانامہ اسکینڈل سے جڑے نیب کے تینوں ریفرنسز میں بری

حسین نواز نے پاناما کیس کے عدالتی فیصلے کے حوالے سے خاموشی توڑتے ہوئے جے آئی ٹی کی تشکیل میں تعصب اور رازداری عناصر کی نشاندہی کرتے ہوئے ریٹائرڈ جج اعجاز افضل خان کے اس اعتراف کو ’جانبداری اور قانون کے بنیادی اصولوں کا مذاق‘ قرار دیا، جس میں انہوں نے جے آئی ٹی کے منتخب کردہ افسران کو واٹس ایپ کالز کے ذریعے شامل کیا تھا۔

’اگر شفافیت مطلوب تھی تو انہیں خود شفاف ہونا چاہیے تھا، جے آئی ٹی کی تشکیل میں دھاندلی اور خفیہ واٹس ایپ کالز کی کیا وجہ تھی؟ اگر انہیں جے آئی ٹی میں ایماندار اور شفاف افراد چاہیے تھے، تو وہ کھلی عدالت میں کہہ سکتے تھے، اس کے بجائے انہوں نے پس پردہ اپنے منتخب کردہ افراد کو شامل کرکے  اسے سرکاری ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا۔‘

مزید پڑھیں: مریم نواز کے وزیر اعلیٰ بننے پر بڑے بھائی حسن اور حسین نواز منظر عام پر کیوں نہ آئے؟

حسین نواز کے مطابق آپ ممکنہ مداخلت کا حوالہ دے کر اپنی جانب سے سسٹم کو نظرانداز کرنے کی وجہ نہیں بناسکتے اور حکومت مداخلت کربھی کیسے سکتی تھی جب آپ کو اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہو۔

’باالفاظ دیگر یہ عدالتی اختیار اور عدالتی عمل کے غلط استعمال کا کھلا اور ناقابل معافی غلط استعمال تھا جو ایک منتخب وزیراعظم کو ہٹانے کےلیے استعمال کیا گیا۔‘

مزید پڑھیں: ’مریم نواز یا حسین نواز، سچ کون بول رہا ہے؟‘ سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی

حسین نواز کے مطابق اس پوری کارروائی میں جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ کا اہم کردار تھا، بحیثیت نیب کے ڈپٹی پروسیکیوٹر جنرل انہوں نے جنرل مشرف کے دور میں شریف خاندان کے خلاف مقدمات بنائے اور بعد میں انہی مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے بینچ میں بیٹھے، جو خود ہی مقدمے کو کالعدم قرار دینے کے لیے کافی ہے۔

حسین نواز کا موقف تھا کہ ایک اہم قانونی اصول ہے کہ کوئی شخص اپنے ہی معاملے کا جج نہیں بن سکتا۔ یہی عظمت سعید شیخ تھے جنہوں نے پہلے مشرف دور میں ان بے بنیاد مقدمات کی بنیاد رکھی اور پھر پاناما بنچ پر بیٹھ کر فیصلہ دیا۔

مزید پڑھیں: دبئی پراپرٹی لیکس: صدر زرداری کے بچوں، حسین نواز اور محسن نقوی کی اہلیہ سمیت متعدد پاکستانیوں کی جائیدادوں کا انکشاف

’مختصراً، سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا وہ چاہتے تو بغیر سماعت کے فیصلہ سناتے اور قوم کا وقت اور پیسہ بچاتے۔‘

حسین نواز کا کہنا تھا کہ پانامہ پیپرز کی انکوائری کے لیے قائم جے آئی ٹی کی تشکیل مکمل طور پر شریف قیملی مخالف افسران پر مشتمل تھی جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے تھے۔

مزید پڑھیں:میرا اور حسن نواز کا کسی حکومت سے تعلق نہیں، حسین نواز

اقامہ کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئےحسین نواز کا موقف تھا کہ ان کے خاندان کی جلاوطنی کے بعد نواز شریف نے اپنے بیٹے کی کمپنی کے ذریعے یو اے ای کی رہائش حاصل کی تھی، یہ قانونی بندوبست تھا، کرپشن نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp