ذیا بیطس ایک عام اور دائمی بیماری ہے جس میں خون میں شوگر (گلوکوز) کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ یا تو جسم انسولین پیدا نہیں کرتا یا انسولین کی کارکردگی کم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے خون میں گلوکوز کا توازن برقرار نہیں رہتا۔
انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان ذیابیطس کے لحاظ سے دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے اور یہاں اس کی شرح 30.8 فیصد ہے۔
شوگر کی اقسام، یہ کیوں ہوتی ہے؟
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ماہر امراض شوگر اور موٹاپا ڈاکٹر محمد عمر وہاب نے وی نیوز کو بتایا کہ بنیادی طور پر شوگر کی 3 اقسام ہیں جن میں ٹائپ 1، ٹائپ 2 اور جیسٹیشنل ذیابیطس شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: موٹاپا اور شوگر کا خطرہ، چاول پکانے سے پہلے ضرور کریں یہ کام
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بھی اقسام ہیں لیکن یہ وہ 3 قسمیں ہیں جن کا سب کو پتا ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹائپ 1 ذیابیطس بچوں میں جبکہ ٹائپ 2 ذیابیطس نوجوانوں اور بزرگوں میں ہوتی ہے اور اس کی شرح دوسری اقسام کے مقابلے میں تقریباً 90 فیصد ہے۔
شوگر کی وجہ صحتمندانہ سرگرمیاں نہ ہونا، ذہنی تناؤ، کھانے کی عادات، خاندان میں شادیاں اور ضرورت سے زیادہ وزن کا ہونا ہے۔
بچے کیوں ذیابیطس کا شکار ہو رہے ہیں؟
ڈاکٹر محمد عمر وہاب کا کہنا تھا کہ جیسٹیشنل ذیابیطس وہ قسم ہے جو خواتین کو حمل کے دوران ہو جاتی ہے لیکن یہاں ایک چیز واضح ہونا بہت ضروری ہے کہ ذیابیطس کی یہ قسم ٹائپ 1 بچوں میں عموماً منتقل نہیں ہوتی مگر کچھ حد تک چانسز ہوتے ہیں کہ وہ بچہ اس وجہ سے ٹائپ 1 ذیابیطس کا شکار ہوجائے اس لیے حاملہ خواتین کو خاص طور پر اس چیز کا دھیان رکھنا چاہیے کیونکہ پھر وہ آنے والے اگلے حمل کے دوران بھی ذیابطیس کا شکار رہتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بچوں میں جو ذیابیطس ہو رہی ہے اس کا تعلق حمل سے نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ آٹو امیون ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ذیابیطس بچوں کو عمر کے کسی بھی حصے میں ہو سکتی ہے جس سے نہ والدین اور نہ ہی خوراک کا تعلق ہوتا ہے۔
مزید پڑھیے: 25 سال سے شوگر کے باوجود فٹنس کیسے؟ وسیم اکرم نے بڑا راز بتا دیا
ان کا کہنا تھا کہ یہ آٹو امیون ہے جس میں لبلبہ اپنے ہی خلاف کام کرنا شروع کر دیتا ہے اور ان کے انسولین کے ریزرو ختم ہو جاتے ہیں جس کے لیے ایسے بچوں کو پہلے دن سے انسولین لگانا بہت ضروری ہوتا ہے۔
نوجوانوں میں ذیابیطس کی بڑھتی شرح کی وجہ
ٹائپ 2 ذیابیطس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ذیابیطس کی یہ قسم ہمارے بڑوں میں ہوا کرتی تھی اور وہ بھی جب وہ 40 سے 45 سال کی عمر میں پہنچ جاتے تھے اور اس کی وجہ ان کی خوراک، کھانا کھانے کے باقائدہ اوقات ہوا کرتے تھے جس کے مطابق وہ چلا کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اب کولڈ ڈرنکس، برگر، شوارما وغیرہ پر ہی سب جی رہے ہیں، پہلے اسکولز میں کھیلوں کی سرگرمیاں ہوا کرتی تھیں لیکن اب وہاں بھی صحتمند سرگرمیاں کم ہی نظر آتی ہیں اور یہی وجہ ہے اب بد قسمتی سے 18 سال کے بچے بچیاں بھی اس عارضے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کی ایک اور وجہ کزن میریجز بھی ہے۔
پری ڈائبیٹک افراد میں کونسی علامات ہوتی ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ یہ عارضہ خاموش قاتل ہے کیونکہ اس میں کچھ چیزیں واضح ہو جاتی ہیں اور کچھ نہیں ہوتیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مجموعی طور پر ذیابیطس کی چند علامات میں بار بار باتھ روم جانا، منہ کا خشک رہنا، بھوک کا زیادہ احساس ہونا اور وزن کا گھٹنا وغیرہ شامل ہے لہٰذا ایس صورت میں کم از کم ایک بار اسکریننگ ضرور کروا لینی چاہیے۔
مزید پڑھیں: ٹائپ ون شوگر میں مبتلا افراد کے لیے نئی ٹیکنالوجی متعارف
ڈاکٹر محمد عمر وہاب نے بتایا کہ پاکستان میں 4 کروڑ لوگ ایسے ہیں جو ذیابیطس کا شکار ہیں لیکن انہیں اس کا علم ہی نہیں ہے کہ انہیں ذیابیطس ہے جس کا بنیادی سبب آگاہی کا فقدان ہے۔
کونسے پھل استعمال نہ کیے جائیں، دیگر پرہیز
ان کا کہنا تھا کہ یوں تو تمام پھل اور سبزیاں ہی بہترین غذا ہیں تاہم آم، کیلے، تربوز، انگور جیسے پھلوں سے پرہیز کرنا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان کا استعمال بالکل ہی ترک کردیا جائے بس اس دن باقی ڈائٹ کنٹرول کی جائے اور شوگر لیول چیک کرکے یہ پھل کھائے جائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گڑ اور چینی کے استعمال سے پرہیز ضروری ہے۔
ڈاکٹر محمد عمر وہاب نے کہا کہ چاول اور روٹی کو ایک ساتھ استعمال نہ کیا جائے، ہمارے ہاں صرف میٹھی چیز کو ہی شوگر کے بڑھنے کی وجہ قرار دیا جاتا ہے جب کہ شوگر کی مقدار تقریباً ہر چیز میں ہے اس لیے روٹی اور چاول بھی ایک خاص مقدار میں کھانا چاہیے۔ اس کے علاوہ بیکری آئٹمز اور کولڈ ڈرنکس کا استعمال بالکل بھی نہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ انسان کے پیٹ کا سائز اس کی مٹھی کے برابر ہے اور اپنی مٹھی کے مطابق ہی کھائیں سب کچھ ٹھیک رہے گا‘۔
ذیابیطس اور ذہنی تناؤ کا آپس میں تعلق؟
ڈاکٹر محمد عمر وہاب کا کہنا تھا کہ ذہنی تناؤ اور ذیابیطس کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے اور پاکستان میں مالی حالات کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا عنصر بہت زیادہ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ذہنی تناؤ شوگرکے لیول کو بڑھاتا ہے چونکہ اس کا تعلق اینڈوکرائن سسٹم سے ہے اس لیے ذہنی تناؤ اس کے لیول کو کم یا زیادہ کرسکتا ہے لہٰذا اس سے بچنا چاہیے۔
شوگر لیول کو کیسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے؟
شوگر کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی بیماری نہیں ہے صرف انسان کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پریشانی کو سر پر سوار نہ کریں، صحتمند غذا کا استعمال کریں، صبح پھل و پروٹین سے بھرپور اچھا ناشتہ کریں، دوپہر میں کچھ ہلکا پھلکا کھائیں اور روزانہ نصف گھنٹہ چہل قدمی کریں۔
کیا ذیابیطس کو جڑ سے ختم کیا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر عمر وہاب نے کہا کہ وہ 300 افراد کی شوگر کو جڑ سے ختم کر چکے ہیں اور اس کامیابی کی وجہ صرف اس عارضے کے شکار افراد کے طرز زندگی کی اصلاح تھی جس میں ان لوگوں کو تقریباً 8 مہینے کا وقت لگا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیے: شوگر کو بغیر ادویات کیسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ وہ افراد جنہیں شوگر اور موٹاپا دونوں ہے وہ اپنا 10 فیصد وزن کم کر لیں اور اپنی ڈائٹ سے چینی اور گڑ بھی نکال دیں تو ان کے شوگر لیول میں بہت زیادہ فرق آ جائے گا۔