اسموگ: ایک اور المیہ

ہفتہ 16 نومبر 2024
author image

احمد ولید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ملک کو درپیش دیگر آلام کی طرح پاکستان میں اب اسموگ ایک نیا المیہ بن کر ابھر رہا ہے۔ باغوں کا شہر لاہور گزشتہ چند سالوں سے دنیا میں ماحولیاتی آلودگی میں سرفہرست ہے، جہاں ایئر کوالٹی کی شرح انڈیکس 300 کی خطرناک سطح سے بڑھتے بڑھتے 2000 تک جا پہنچی ہے۔ اس پر قابو پانے کے لیے گزشتہ حکومتوں کی طرح اس دور میں بھی سوائے اینٹوں کے بھٹوں میں زگ زیگ ٹیکنالوجی نصب کروانے، چند فیکٹریوں کو سیل کرنے اور تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے علاوہ کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا جاسکا۔

یہ بھی پڑھیں:کیا واقعی اس حکومت کے پاس زیادہ وقت نہیں؟

اس بار سارا ملبہ بھارت سے آنے والی ہواؤں پر ڈال دیا گیا اور ایسا بیانیہ دیا کہ عام شہری بھی سمجھنے لگے کہ شاید  پاکستان میں اسموگ دشمن ملک بھارت کی طرف سے آنے والی ہواؤں کی وجہ سے پھیل رہی ہے۔

جب صورت حال بالکل بے قابو ہوگئی تو بتایا جانے لگا کہ یہ مسئلہ چند مہینوں نہیں بلکہ لگ بھگ 10 سال میں حل ہوگا، جس کے لیے حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔ شرط یہ بھی ہے کہ یہ حکومت مدت پوری کرے اور اگلی حکومت اس حکمت عملی کو قابل عمل سمجھتے ہوئے آگے لے کر چلے۔

پچھلی تمام حکومتوں کی نااہلی کی سزا عوام بھگت رہے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ یہی سیاستدان ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں۔

لاہور سمیت پنجاب کے بیشتر شہروں میں آبادی کے بے ہنگم پھیلاؤ کو روکنے میں بری طرح ناکامی کی وجہ سے یہ تمام شہر آج اسموگ سمیت بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:سوشل میڈیا کا آتش فشاں

پنجاب جیسے سرسبز صوبے کو کنکریٹ کا جنگل بنایا دیا گیا جس پر کسی حکومت نے غور ہی نہیں کیا۔ بلکہ اس گھناؤنے عمل میں سرکار کھلے عام ملوث پائی گئی۔ صاف پانی کی کمی، کھیلوں کے میدان کا فقدان، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کا نہ ہونا ایک خوفناک المیے کو جنم دے چکا ہے۔  اب یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ شہر رہنے کے قابل نہیں رہے۔

آبادیاں گرا کر سبزہ دوبارہ تو نہیں اگایا جا سکتا اور نہ ہی کھیلوں کے میدان بنائے جا سکتے ہیں۔ صحت اور تعلیم کی سہولتوں کی بات ہو تو فنڈز کی کمی سامنے آجاتی ہے۔

پنجاب کی ایک وزیر کہتی ہیں کہ فیکٹریوں کو کیسے لاہور شہر سے باہر منتقل کریں کیونکہ شہر سے باہر نکلتے ہی دوسرا شہر شروع ہو جاتا ہے۔ آپ جس طرف بھی نکل جائیں آپ کو پتا ہی نہیں چلے گا کہ اگلا شہر شروع ہو چکا ہے۔

شہروں کا یہ حال ہے کہ محض ڈرائیونگ لائسنس بانٹے جا رہے ہیں مگر لاہور سمیت کہیں بھی گاڑیوں کی انسپیکشن کا کوئی نظام سرے سے موجود نہیں کہ ہر  6 ماہ یا سال بعد اس کی فٹنس چیک کی جاسکے کہ وہ سڑکوں پر آنے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔

 آئے روز شاہراہوں پر ٹائر پھٹنے اور گاڑیوں کی خستہ حالی کی وجہ سے حادثات رونما ہو رہے ہیں، مگر قیمتی جانوں کے ضائع ہونے کی کسی حکومت یا ادارے کو کوئی پروا نہیں۔ آلودگی کی وجہ سے ہزاروں لاکھوں مریض آ رہے ہیں مگر اس کے تدارک پر کوئی دھیان نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:عدلیہ اور کاروبار

دنیا بھر کی تحقیق بتا رہی ہے کہ اسموگ میں سب سے بڑا کردار سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں کا ہے۔ جن سے ہونے والا اخراج دنیا کے ماحول کو آلودہ کر رہا ہے۔ پاکستان میں پرانی طرز کی گاڑیوں کا اخراج، کارخانوں کا دھواں، مٹی کے باریک ذرات، وغیرہ فضا میں موجود نمی (دھند) سے مل کر اسموگ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

لاہور جیسے میٹروپولیٹن شہر میں ٹرانسپورٹ موجود ہی نہیں۔ شہر تمام اطراف میں پھیلتا جا رہا ہے مگر انتظامیہ نے بسوں کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں کہ ان آبادیوں میں رہائش پذیر شہری سفر کیسے کریں گے۔ جس کی وجہ سے گاڑیاں، نقل و حمل کے دیگر ذرائع جن میں رکشا، موٹرسائیکل رکشا اور موٹرسائیکل کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے، جبکہ ان سے خاتج ہونے والا دھواں ہر سال موسم برسات کے بعد سردی کے آغاز میں اسموگ کی بڑی وجہ بن رہا ہے۔

مون سون کے بریک کے بعد اسی موسم میں اینٹوں کے بھٹے بھی چلنا شروع ہر جاتے ہیں اور اس کے ساتھ چاول کی کٹائی کے بعد فصل کی مڈھیاں بھی جلانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف شہر کے چاروں اطراف میں کارخانے دھواں چھوڑتے ہیں۔ یہی سب عوامل ہر سال اسموگ میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:دفاع اور معیشت

یہ سب کاروبار کئی دہائیوں سے ایسے ہی چلتے آ رہے ہیں جن کے سدباب کے لیے کسی حکومت اور ادارے نے سوچنے کی زحمت نہیں کی اور آج کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ ان سے کیسے نمٹا جائے۔

ہماری اپنی نااہلیوں اور نالائقیوں کی وجہ سے اپنے ہاتھوں سے پیدا کردہ بدترین اسموگ، بدحال معیشت، لاقانونیت، برے کاروباری حالات، تعلیم و صحت کی سہولتوں کا فقدان، طاقتور طبقوں کی دھونس، میریٹ برائے نام، بے ایمانی، رشوت کی بھرمار، تاریک مستقبل جیسے بڑے مسائل نے ملک کو اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ صرف شہر ہی رہنے کے قابل نہیں رہے بلکہ نئی نسل مایوس ہو کر ملک چھوڑنے کو ترجیح دے رہی ہے۔ انہیں یہ یقین ہو رہا ہے کہ پاکستان کو جس قدر سنگین المیے درپیش ہیں ان سے نکلنے میں دہائیاں نہیں بلکہ کئی سو سال بھی لگ سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp