عمران خان پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلائے جانے کا کوئی اشارہ نہیں ملا، برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی

ہفتہ 16 نومبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا ہے کہ پاکستانی حکام کی جانب سے اس بات کے کوئی حالیہ اشارے نہیں ملے ہیں کہ وہ سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:امریکی سینیٹرز کے بعد برطانوی ارکان پارلیمنٹ بھی عمران خان کی رہائی کے لیے متحرک

برطانوی وزیر خارجہ برائے خارجہ، دولت مشترکہ اور ترقیاتی امور نے یہ بات کم جانسن کے خط کے جواب میں کہی جو انہوں نے عمران خان کے مشیر برائے بین الاقوامی امور زلفی بخاری کی درخواست پر برطانوی حکومت کو لکھا تھا۔

برطانوی ممبر پارلیمنٹ نے خط میں لکھا تھا کہ ’برطانوی ممبران پارلیمنٹ کو عمران خان سمیت عام شہریوں کے خلاف مقدمات چلانے کے لیے فوجی عدالتوں کے ممکنہ استعمال پر تشویش ہے کیونکہ فوجی عدالتوں میں شفافیت اور آزادانہ جانچ پڑتال کا فقدان ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی طور پر انصاف کے معیار کی تعمیل کا اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے۔

 مزید پڑھیں:عمران خان کی حمایت میں امریکی خط پاکستان کے معاملات میں مداخلت ہے، پاکستان علماء کونسل

برطانوی وزیر خارجہ نے جواب میں لکھا کہ ’ہمیں پاکستانی حکام کی جانب سے ایسے کوئی اشارے نہیں ملے ہیں کہ وہ عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں تاہم ہم صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں‘۔

زلفی بخاری نے ایک ماہ قبل تمام جماعتوں کے 20 ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے برطانوی حکومت کے لیے ایک خط لکھا تھا، جس میں عدلیہ میں تبدیلیوں اور 26 ویں ترمیم کی منظوری کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

 یہ بھی پڑھیں:عمران خان کی رہائی اور فوجی قیادت پر پابندی کی قرارداد کینیڈین پارلیمنٹ میں پیش

سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان کا عدالتی نظام اس داخلی معاملہ ہے لیکن ہم بہت واضح رہے ہیں کہ پاکستانی حکام کو اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کے مطابق اور بنیادی انسانی آزادیوں کے احترام کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت پر زور دیں، جس میں منصفانہ ٹرائل کا حق، مناسب طریقہ کار اور حراست جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اس کا اطلاق عمران خان پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ پاکستان کے تمام شہریوں پر ہوتا ہے۔

ڈیوڈ لیمی نے جواب میں مزید لکھا کہ آپ کی طرح میں بھی اظہار رائے اور شخصی آزادیوں پر پابندیوں کے بارے میں فکرمند ہوں، برطانوی حکومت پاکستانی حکام کے ساتھ اپنے رابطوں میں اس بات پر زور دیتے رہتے ہیں کہ سنسرشپ، ڈرانے دھمکانے یا غیر ضروری پابندیوں کے بغیر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی آزادی جمہوریت میں انتہائی اہم حیثیت رکھتی ہے۔

 مزید پڑھیں:ڈونلڈ لو کے بیان کے دوران امریکی شہری کا عمران خان کی رہائی کا مطالبہ، ویڈیو وائرل

انہوں نے کہا کہ ایف سی ڈی او (فارن، کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس) کے وزیر برائے پاکستان فالکنر نے پاکستان کے وزیر برائے انسانی حقوق اعظم نذیر تارڑ کے سامنے شہری اور سیاسی حقوق کو مدنظر رکھنے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔

وزیر فالکنر اس سال کے آخر میں پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں اور میں نے ان سے کہا ہے کہ وہ واپسی پر آپ اور دیگر دلچسپی رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ سے ملاقات کا انتظام کریں۔

جہاں تک پاکستان کی آئینی ترامیم کا تعلق ہے تو ہمارے علم میں ہے کہ یہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے اکتوبر میں منظور کی تھیں۔ اگرچہ پاکستان کے آئین میں کوئی بھی ترمیم پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، لیکن ہم واضح رہے ہیں کہ ایک آزاد عدلیہ، جو دیگر ریاستی اداروں پر چیک اور بیلنس رکھنے کا اختیار رکھتی ہو ، ایک فعال جمہوریت کے لیے اہم ہے، اس حوالے سے برطانیہ اپنے مشترکہ مفادات کے دائرے میں پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔

یہ بھی پڑھیں:ایمنسٹی انٹرنیشنل کا عمران خان کی فوری رہائی کا مطالبہ

واضح رہے کہ ڈیوڈ لیمی کے نام خط پر دستخط کرنے والوں میں جانسن ایم پی، پاولا بارکر ایم پی، اپسانا بیگم، لیام بائرن، روزی ڈوفیلڈ، گل فرنس، پاؤلیٹ ہیملٹن، پیٹر لیمب، اینڈی میکڈونلڈ، ابتسام محمد، بیل ریبیرو ایڈی، زارا سلطانہ، اسٹیو ویدرڈن، نادیہ وٹوم، بیرونس جون بیکویل، بیرونس جان بیکویل، بیرونس کرسٹین بلور، لارڈ پیٹر ہین، لارڈ جان ہینڈی اور لارڈ ٹوڈونفیل شامل ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp