پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر پلوشہ خان نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کا اجلاس پیر کو طلب کیا ہے جس میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ یا اس کے بغیر ملک بھر میں ’غیر قانونی وی پی اینز‘ کی روک تھام پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں:فری لانسرز کے لیے خوشخبری: پی ٹی اے کی جانب سے نئی وی پی این رجسٹریشن پالیسی کا اعلان
پاکستان میں ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ زیادہ تر انٹرنیٹ صارفین سوشل میڈیا خاص کر ’ایکس ڈاٹ کام‘ اور بہت سی دیگر سائٹس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ’وی پی این‘ کا استعمال کر رہے ہیں، جس پر رواں سال فروری سے پابندی عائد ہے۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ ’وی پی این ‘ کو بلاک کرنے کے لیے استعمال ہونے والے سافٹ ویئر کو فحش مواد کی روک تھام کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
بدھ کو پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی (پی ٹی اے) نے کہا تھا کہ فحش مواد تک رسائی کو روکنے کے لیے مستقبل میں وی پی این کے استعمال کو محدود کیا جائے گا، جس کے بعد اتوار کو ملک بھر میں وی پی این غیر فعال ہوگئے تھے۔
مزید پڑھیں:مفت وی پی این سروسز ختم، پی ٹی اے نے استعمال کے لیے رجسٹریشن لازمی قرار دیدی
اتھارٹی نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ اس نے اب تک توہین آمیز مواد پر مشتمل 100,183 یو آر ایلز اور 844,008 فحش ویب سائٹس کو بلاک کیا ہے۔
گزشتہ روز وزارت داخلہ نے وی پی اینز کو دہشتگردوں کی جانب سے ’پرتشدد سرگرمیوں میں استعمال کرنے، فحش اور گستاخانہ مواد تک رسائی کے لیے استعمال کا حوالہ دیتے ہوئے ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی سے کہا تھا کہ وہ پورے پاکستان میں ’غیر قانونی وی پی این‘ کو بلاک کرے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹ کمیٹی کی چیئرپرسن پلوشہ خان نے کہا تھا کہ غیر معمولی اقدام کے طور پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اجلاس منعقد کرے گی، بھلے ہی وزارت آئی ٹی شرکت نہ کرے۔
یہ بھی پڑھیں:کیا اب پاکستان میں بلاک کی گئی ویب سائٹس چلانے کے لیے وی پی این خریدنا ہوگا؟
انہوں نے کہا تھا کہ یہ بہت پریشان کن بات ہے کہ میں نے 18 نومبر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کا اجلاس طلب کیا ہے اور وزارت آئی ٹی نے مجھے دوسری بار لکھا ہے کہ وہ دستیاب نہیں ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی کی رہنما کا کہنا تھا کہ وہ اجلاس طلب کریں گی چاہے وزارت آئی ٹی کمیٹی کے اس اجلاس میں شریک ہو یا نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہم ان کی کارکردگی کے حوالے سے اپنے تحفظات پیش کریں گے اور اس کا تنقیدی جائزہ لیں گے اور یہ بھی بتائیں گے کہ وہ کیوں نہیں آنا چاہتے۔
پلوشہ خان نے کہا کہ جب آپ کے ملک میں انٹرنیٹ کام نہ کر رہا ہو تو اس سے لوگوں کی نوکریاں متاثر ہو رہی ہیں، لوگوں کے ایک دوسرے سے رابطے منقطع ہو رہے ہیں۔
وزارت داخلہ کی جانب سے جواب دیے جانے اور اس پر مطمئن ہونے کے سوال پر پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ ‘میں صرف اس وقت مطمئن ہوں گی جب وہ آئیں گے اور ہمیں جواب دیں گے لیکن وہ تو آنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں‘۔
مزید پڑھیں:وی پی این کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کا فتویٰ غلط ہے، مولانا طارق جمیل
پلوشہ خان نے کہا کہ کمیٹی نے وی پی اینز پر پابندی کی اجازت دی یا نہیں یہ بالکل الگ معاملہ ہے۔جب تک ہماری وزارت ہمیں ان کیمرہ ہی سرکاری مؤقف اور اصل صورت حال سے آگاہ نہیں کرتی، تب تک ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔
پی ٹی اے نے وی پی این رجسٹریشن کا عمل آسان بنا دیا
علاوہ ازیں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے تنظیموں اور فری لانسرز کے لیے وی پی این رجسٹریشن کو آسان بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایک بیان کے مطابق سافٹ ویئر ہاؤسز، کال سینٹرز، بینکوں، سفارت خانوں اور فری لانسرز جیسے ادارے اب پی ٹی اے کی آفیشل ویب سائٹ کے ذریعے اپنے وی پی این کو آن لائن رجسٹر کروا سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان میں وی پی این غیر شرعی قرار:’نوکیا3310 یاد آرہا ہے‘
پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ (پی ایس ای بی) کے ممبران بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، رجسٹریشن میں ’آن لائن فارم مکمل کرنا اور بنیادی تفصیلات فراہم کرنا‘ شامل ہے۔
پی ٹی اے کی ویب سائٹ پر جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ فری لانسرز کو ’وی پی این‘ حاصل کرنے کے لیے کمپنی جس کے ساتھ وہ کام کر رہے ہیں، سے تصدیق کی دستاویزات جمع کرانا ہوں گی ۔
پی ٹی اے کا مزید کہنا ہے کہ تجارتی مقاصد کے لیے وی پی این کی ضرورت رکھنے والا کوئی بھی شخص ’فری لانسر‘ زمرے کے تحت درخواست دے سکتا ہے۔