سپریم کورٹ میں کام کی رفتار تیز، آئینی بینچ نے 3 روز میں کون سے اہم مقدمات سنے؟

پیر 18 نومبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

14 نومبر سے باقاعدہ سماعت کے بعد سے اب تک آئینی بنیچز مجموعی طور پر 37 مقدمات کی سماعت کرچکے ہیں جن کے ساتھ ساتھ ٹیکس سے متعلق 1178 دیگر مقدمات ایسے ہیں جنہیں آج آئینی بینچ نے یکجا کردیا کیونکہ ان میں ایک ہی طرح کے آئینی سوالات ہیں۔ سپریم کورٹ کے آئینی بنیچز نے 14، 15 اور 18 نومبر کو مقدمات سماعت کی۔

دوسری طرف سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی مقدمات سننے اور نمٹانے کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری 5 نومبر تک ایک ہفتے کے اعداد و شمار کے مطابق ایک ہفتے میں 302 مقدمات دائر جبکہ 679 نمٹائے گئے، مذکورہ ایک ہفتے کے دوران 377 مقدمات نمٹائے گئے۔

یہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں اہم کیسز کی سماعت

آئینی بینچز میں سنے گئے اب تک کے مقدمات

آئینی بینچز کی اگر بات کی جائے تو پہلا مقدمہ جو یہاں سنا گیا وہ ماحولیاتی آلودگی سے متعلق تھا۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 9 میں ترمیم کی گئی ہے جس کے مطابق صاف ستھرا ماحول بھی بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔ آئینی بینچز نے اس مقدمے میں چاروں صوبوں سے رپورٹس طلب کی ہیں۔

غیر مؤثر ہونے کی بنا پر خارج ہونے والے مقدمات

آئینی بینچ نے 14 نومبر کو سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تقرری کے خلاف نظرثانی درخواست مسترد کردی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ یہ نظرثانی درخواست ہے، کیس کو دوبارہ نہیں کھول سکتے، جس پر درخواست گزار ریاض حنیف راہی ایڈووکیٹ نے کہاکہ سپریم کورٹ نے بھٹو کیس بھی 40 سال بعد سنا، اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ فورم سیاسی تقاریر کا ہے نہ پیٹھ پیچھے برائی کا۔ قانون سے نہیں ہٹ سکتے، انہوں نے یہ بھی کہاکہ اب جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا پیچھا چھوڑ دیں۔

اس کے علاوہ آئینی بینچ نے عام انتخابات 2024 ری شیڈول کرنے کی درخواست غیر مؤثر ہونے کی بنا خارج کردی، جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس مقدمے میں وکیل کے حاضر نہ ہونے پر کہاکہ وکیل کے نہ آنے پر بھاری جرمانہ ہونا چاہیئے۔

آئینی بینچ نے بحریہ ٹاؤن کو بلیک لسٹ کرنے سے متعلق محمود اختر نقوی ایڈووکیٹ کی درخواست بھی عدم پیروی پر خارج کردی۔

قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار، اس بنیاد پر کون سے مقدمے خارج ہوئے؟

آئینی بینچ نے سرکاری ملازمین کی غیر ملکی شہریت کی خواتین اور مردوں سے شادی سے متعلق درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کردی، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ یہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے، عدالت کیسے کسی کو منع کرسکتی ہے۔ عدالت نے درخواست گزار محمود نقوی کو اس مقدمے میں 20 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔

اس کے علاوہ آئینی بینچ نے اراکین پارلیمنٹ کے غیر ملکی اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس کے خلاف دائر درخواست 20 ہزار روپے جرمانے کے ساتھ خارج کردی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس مقدمے میں بھی یہ ریمارکس دیے کہ قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے، پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنے کا نہیں کہہ سکتے۔

اسی طرح سے پی ڈی ایم دورِ حکومت میں ہونے والی قانون سازی کے خلاف بھی درخواست 20 ہزار روپے جرمانے کے ساتھ خارج کردی گئی۔

آئینی بینچ نے آج 18 نومبر کو ایک مقدمہ خارج کیا جس میں استدعا کی گئی تھی کہ 50 فیصد سے زیادہ ووٹ لینے والے امیدوار کو فاتح قرار دیا جائے۔ اس مقدمے میں بھی عدالت نے کہاکہ آئین و قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے اور کسی آئینی شق میں ایسا نہیں لکھا۔

اسی طرح سے 18 نومبر ہی کو ایک مقدمے کی سماعت ہوئی جس میں درخواست گزار مولوی اقبال حیدر بذریعہ ویڈیو لنک عدالت میں پیش ہوئے۔ درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ آزاد امیدواروں کو سیاسی جماعتوں میں شمولیت کا پابند بنایا جائے۔

جسٹس امین الدین خان نے درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ کو عدالتی احاطے میں آنے کی اجازت دی، یہی آپ کے لیے کافی ہے۔ جس پر درخواست گزار نے کہاکہ یہ معاملہ طے ہو چکا ہے، میری درخواست غیر مؤثر ہوچکی ہے۔

آئینی بینچ نے ازخود نوٹس مقدمہ بھی نمٹا دیا

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) دور میں کنونشن سینٹر اسلام آباد میں پی ٹی آئی نے پارٹی جلسہ کیا جس پر کنونشن سینٹر کے نجی استعمال پر ازخود نوٹس لیا گیا۔ اٹارنی جنرل کے بتانے پر کہ کنونشن سینٹر استعمال کے واجبات ادا کر دیے گئے تھے، آئینی بینچ نے مقدمہ نمٹا دیا۔

آئینی بنچ کے سامنے انسداد دہشت گردی کے ایک کیس پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی تو وکیل منیر پراچہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ اس کیس میں مزید کارروائی کی ضرورت نہیں، 26ویں آئینی ترمیم کے بعد اب سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے ہی نہیں سکتی، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ وکیل صاحب ترمیم کے بعد صرف پروسیجر تبدیل ہوا ہے، سپریم کورٹ اب بھی ازخود نوٹس لے سکتی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اب ازخود نوٹس آئینی بینچ میں چلے گا۔

یہ بھی پڑھیں کنونشن سینٹر کا نجی استعمال، آئینی بینچ نے بانی پی ٹی آئی کیخلاف کیس نمٹا دیا

جسٹس منصور علی شاہ اور سابق وفاقی محتسب کا تنازع

یہ دلچسپ مقدمہ تھا جس میں سابق وفاقی محتسب یاسمین عباسی کی جانب سے ہراسانی کے ملزم کے خلاف کارروائی کے احکامات پر اس وقت لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے حکم امتناع جاری کردیا تھا لیکن یاسمین عباسی نے مقدمے کی کارروائی جاری رکھی۔ بعد ازاں وفاقی محتسب نے لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منصور علی شاہ نے وفاقی محتسب کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے۔ اس مقدمے میں آئینی بینچ نے سابق وفاقی محتسب کے وکیل کو جواب کے لیے مہلت دے دی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp