پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما و سابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے ماضی میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی اور دوری کو سب سے بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ 24 نومبر اسلام آباد مارچ کے دوران اگر مذاکرات ہوئے تو صرف طاقتور اور بااختیار لوگوں کے ساتھ ہوں گے۔
پشاور میں وی نیوز سے خصوصی انٹرویو میں شوکت یوسفزئی نے 24 نومبر اسلام آباد مارچ کی تیاریوں اور وفاق مخالفت احتجاج اور دھرنے اور بشریٰ بی بی کی جانب سے مارچ کی تیاریوں پر تفصیلی اور کھل کر بات کی ہے۔
’اسٹیبلشمنٹ سے پی ٹی آئی کی دوری بڑی غلطی‘
شوکت یوسفزئی نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں پی ٹی آئی سے کافی غلطیاں ہوئی ہیں اور ان میں سب سے بڑی غلطی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی اور دوری تھی۔ ’سیاسی کارکن کے طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی نہیں کرنی چاہیے تھی اور یہ ایک بڑی غلطی تھی جیسے ماننا چاہیے‘۔
شوکت یوسفزئی نے کہا کہ سیاسی مخالفیں نے پی ٹی آئی کی دوری اور لڑائی کا فائدہ اٹھایا، اور یہ تاثر پھیلایا کہ پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ یا فوج مخالف جماعت ہے۔’پی ٹی آئی کبھی بھی اپنی فوج کے مخالف نہیں رہی، بلکہ عمران خان آج بھی کہتے ہیں کہ پاک فوج ہماری فوج ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں ہوتا پی ٹی ائی کی اسٹیبلشمنٹ سے دوری کا عوام کو بھی نقصان ہوا جس کی وجہ سے موجودہ ’ٹولہ‘ پھر سے حکومت پر قابض ہو گیا‘۔
شوکت یوسفزئی نے کہا کہ پی ٹی آئی کا فوج سے کوئی مقابلہ نہیں ہے اور نہ پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ ہمارا مقابلہ ن لیگ، پی پی پی، جے یو آئی اور دیگر سیاسی جماعتوں سے ہے، نہتے سیاسی کارکن اسٹیبلشمنٹ کا کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں‘؟۔
ایک سوال کے جواب میں یوسفزئی نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کردار نہیں ہونا چاہیے، اسٹیبلشمنٹ کے اختیارات بھی محدود ہونے چاہییں۔ ہمیں امید ہے کہ اب کی بار اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہے گی۔
اگر مذاکرات ہوئے تو صرف طاقتور اور بااختیار قوتوں سے ہوں گے
شوکت یوسفزئی نے موجودہ حکومت کو بے اختیار قرار دیتے ہوئے کہا کہ دھرنے کے دوران اگر کسی سے مذاکرات ہوئے بھی تو وہ بااختیار اور طاقتور قوتوں کے ساتھ ہی ہوں گے۔ موجودہ حکومت ہمارے مطالبات پورے نہیں کر سکتی کیونکہ ان کے پاس اختیارات ہی نہیں ہیں۔
کیا کسی سے کوئی مذاکرات ہو رہے ہیں؟ ، اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ابھی تک کسی سے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے ہیں تاہم اگر ’علی امین گنڈاپور سے کسی نے کوئی رابطہ کیا ہے اس کا مجھے علم نہیں، عمران خان سے کسی کے رابطہ کی بھی اطلاعات نہیں ہیں‘۔
اسلام آباد مارچ کی تیاریاں
شوکت یوسفزئی نے بتایا کہ پی ٹی آئی 24 نومبر اسلام آباد مارچ کی بھر پور تیاری کر رہی ہے اس حوالے سے تمام قیادت کو ٹاسک بھی مل چکے ہیں۔ احتجاج کی کال عمران خان نے دی ہے اس لیے ورکرز ضرور نکلیں گے۔ احتجاج کی کامیابی کے لیے پی ٹی آئی کی تمام قیادت پشاور میں ہے اور دن رات تیاریوں میں مصروف ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پارٹی کے اندر کوئی اختلافات نہیں البتہ اختلاف رائے ہو سکتا ہے۔ 24 نومبر کو پتا چل جائے گا کہ ’پی ٹی آئی‘ میں سب ایک ہیں اور کوئی اختلافات نہیں ہیں۔
بشریٰ بی بی خان کا پیغام پہنچا رہی ہیں، سیاست نہیں کر رہیں
پی ٹی آئی رہنما شوکت یوسفزئی نے بھی وضاحت کی کہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی 24 نومبر مارچ کے لیے کارکنان کو تیار کر رہی ہیں اور قیادت اور کارکنان کو عمران خان کا پیغام پہنچا رہی ہیں۔ ’سب گلہ کرتے تھے کہ عمران خان تک سچ اور عمران خان کا پیغام ورکرز تک نہیں پہنچ رہا تو بشریٰ بی بی اب عمران خان کا پیغام سب تک پہنچا رہی ہیں‘۔
شوکت یوسفزئی نے پھر وضاحت کی کہ بشریٰ بی بی سیاست نہیں کر رہی ہیں بلکہ شوہر کی رہائی کے لیے کوششیں کر رہی ہیں، ابھی تک بشریٰ بی بی نے سیاست میں آنے کے حوالے سے کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بشریٰ بی بی پارٹی اجلاس میں خطاب بھی کر رہی ہیں اور عمران خان کی ہدایات کے مطابق ورکرز کو زیادہ سے زیادہ احتجاج کے لیے نکلنے کی اپیل کر رہی ہیں۔
ڈی چوک پہنچ کر غیر معینہ دھرنا دیں گے
شوکت یوسفزئی نے بتایا کہ 24 نومبر اسلام آباد مارچ ڈی چوک پہنچ کر ختم نہیں ہو گا بلکہ دھرنا ہو گا۔ 24 نومبر ’آخری کال‘ ہے اور اس تک دھرنا ہو گا جب تک ان کے 3 اہم مطالبات منظور نہیں ہو جاتے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے اہم مطالبات میں عمران خان سمیت سیاسی قیدیوں کی رہائی، الیکشن کے حوالے سے تحفظات شامل ہیں ان مطالبات کی منظوری تک دھرنے میں بیٹھے رہیں گے۔یہ دھرنا تب تک جاری رہے گا جب تک عمران خان خود اس کے خاتمے کا اعلان نہیں کریں گے۔
حالات درست نظر نہیں آ رہے
شوکت یوسفزئی نے وفاقی حکومت اور وزرا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزرا حالات کو نارمل کرنے کے بجائے مزید بھڑکا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اس وقت ’صابن پر کھڑی ہے‘ اور مقتدر حلقوں کی سپورٹ کے بغیر ایک دن بھی نہیں چل سکے گی۔ وفاق کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ مارچ کے دوران حالات ٹھیک نظر نہیں آ رہے ہیں۔
پرامن احتجاج ہے مارنے یا مرنے نہیں جا رہے
شوکت یوسفزئی نے اس خیال کی بھی نفی کی کہ پی ٹی آئی کے کارکن مشتعل ہوں گے، انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کارکن سیاسی لوگ ہیں اور سیاسی لوگ جمہوریت اور حقوق کے لیے سیاسی جہدوجہد کرتے ہیں۔ 24 نومبر مارچ پرامن احتجاج ہے جو ہمارا جمہوری حق ہے، ہم کوئی اسلام آباد مارنے یا مرنے نہیں جا رہے ہیں۔
تمام رکاوٹیں ہٹا کر ڈی چوک پہنچیں گے
شوکت یوسفزئی نے وفاق کو خبر دار کیا ہے موٹروے کھود کر اور کنٹینرز کھڑے کرکے رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش نہ کی جائے، ایسا کیا گیا تو پی ٹی آئی کارکن تمام رکاوٹوں کو ہٹا کر ڈی چوک پہنچے گی۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی روکاوٹیں کھڑی کرکے احتجاج کو روکنے کی کوششیں کی گئیں لیکن کامیابی نہیں ہوئی اور اس بار بھی تمام رکاوٹوں کو ہٹا کر پہنچیں گے۔
پنجاب اور پنڈی والے اس بار کے پی والوں کا استقبال کریں گے
شوکت یوسفزئی نے پنجاب سے کارکنان کے نکلنے کو بڑا چیلنچ قرار دیا اور بتایا کہ پنجاب میں مخالف حکومت کے باعث سخت مشکلات ہوں گی اور ایسے میں مارچ کے لیے نکلنا بڑا چیلنج ہو گا۔ تاہم ہمیں امید ہے کہ اس بار پنجاب سے سب سے زیادہ لوگ نکلیں گے اور پنڈی اور پنجاب والے دیگر صوبوں سے آنے والے مہمانوں کا ’ڈی چوک‘ میں استقبال کریں گے۔