خالد احمد:صحافت میں علم و تحقیق کو پہچان بنانا والا قلم کار

جمعرات 21 نومبر 2024
author image

محمود الحسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

صاحبِ علم عثمان قاضی نے خالد احمد کے انتقال پر لکھا کہ ہمارے دور میں کوئی شخص جامع العلوم کہلا سکتا تھا تو وہ خالد صاحب ہی تھے۔

ایک بات نامور صحافی اشعر رحمان نے لکھی ہے:

’اردو میڈیم عارف ہائی سکول کا لڑکا پڑھ لکھ کر دانشور بن گیا جبکہ ایچی سن کالج والے کزنز کھیل کود میں ہی لگے رہے۔‘

یہ مختصر جملے  خالد احمد کی شخصیت کے لیے ناکافی سہی لیکن پھر بھی بہت کچھ بیان کر جاتے ہیں۔

خالد احمد کی علمی و صحافتی زندگی کا قصہ طولانی ہے۔ اس سفر میں عربی محاورے کے مطابق انہوں نے مٹی ہمیشہ بڑے ڈھیر سے اٹھائی۔ ان کے ساتھ یہ عجب معاملہ رہا کہ جس انسان سے وہ علمی اعتبار سے متاثر ہوئے اس کی شخصیت نے بھی انہیں اپنی طرف مقرر کھینچا۔ اس کے کام پر بات کی تو ساتھ میں شخصی محاسن کا تذکرہ بھی ہوا۔ کڑے وقت میں ہاتھ تھامنے والے، دل جوئی کرنے والے انہیں ہمیشہ یاد رہے۔ خیال آیا کہ کیوں نہ ان میں سے چند ہستیوں کے ساتھ خالد صاحب  کے ربط ضبط کے تذکرے سے انہیں یاد کیا جائے۔

محمد سلیم الرحمٰن کے ذکر خیر سے بات شروع کرتے ہیں جن کی علمیت کے خالد صاحب بہت قائل تھے۔ 2 دسمبر 1982 کو ہفت روزہ ویو پوائنٹ میں انہوں نے اپنے کالم ’ڈو وی نو سلیم الرحمٰن؟ میں ان کے ادبی کام اور شخصیت کا نہایت عمدہ  تعارف کروایا اور ایسے گُنی آدمی کو نظر انداز کیے جانے پر افسوس ظاہر کیا:

‘ہم انہیں نظرانداز کرتے ہیں، کیوں کہ انہیں تسلیم کرنا ہماری پست قامت انا کو مجروح کر دے گا۔’

 یہ بھی لکھا کہ  عجیب بات ہے کہ جو دوسروں کے بارے میں لکھتے ہیں ان کے بارے میں کوئی نہیں لکھتا۔ اس ذیل میں سلیم صاحب کے ساتھ صفدر میر کو بھی شمار کیا۔

سلیم صاحب سے میں نے ایک روز  خالد صاحب سے ان کی پہلی ملاقات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان ٹائمز کے دفتر میں  نسیم احمد نے ان سے کہا کہ خالداحمد کو فکشن نگار عزیز احمد کے بارے میں معلومات چاہییں۔ اس پر سلیم صاحب ان سے ملے تو  معلوم ہوا کہ وہ عزیز احمد کے بارے میں کچھ لکھ رہے ہیں۔ سلیم صاحب نے بتایا کہ ان کے دوست ریاض احمد کا ایم اے میں مقالہ عزیز احمد پر تھا جو وہ انہیں مہیا کر دیں گے۔ خالد صاحب یہ جان کر بہت خوش ہوئے اور یوں ان کی دوستی کی بنا پڑی۔

عزیز احمد پر خالد احمد کا مضمون ان کی صحافتی زندگی میں اہم موڑ تھا۔ اس سے وہ اردو ادب کے بارے میں لکھنے کی طرف آئے۔ ویو پوائنٹ سے ان کا قلمی رشتہ استوار ہوا جہاں ان کا کالم جانس (Janus)کے قلمی نام سے شائع ہوتا تھا۔ 1978ء میں ضیاء دور میں فارن سروس چھوڑ کر وہ نیشنل پریس ٹرسٹ کے زیر انتظام  پاکستان ٹائمز سے اداریہ نویس کی حیثیت سے وابستہ ہوئے تو یہ ان کے لیے زیادہ خوشگوار تجربہ ثابت نہیں ہوا۔ وہاں کام کرنے کے ساتھ ساتھ  ویو پوائنٹ کی صورت میں انہیں وہ صحافتی پلیٹ فارم میسر آیا جو لکھاری کی حیثیت سے ان کے لیے زیادہ سازگار تھا۔

صحافت کے ابتدائی زمانے میں سلیم صاحب کی دوستی نے انہیں بڑی ذہنی تقویت دی۔  لاہور سے جڑی یادوں کو انہوں نے ’دی لاہور وی لوسٹ ‘ کے عنوان سے مضمون میں پرویا تو اس میں سلیم صاحب کا کئی جگہ ذکر آیا۔

2017 میں سلیم صاحب کی سالگرہ پر میں نے فیس بک پر شذرہ لکھا تو اس پر خالد صاحب نے کمنٹ کیا:

I am his permanent admirer from the days I was a nobody in journalism and he  befriended me.

پاکستان ٹائمز میں اداریہ نویسی کے ساتھ ساتھ ویو پوائنٹ میں ادبی و ثقافتی موضوعات پر کالم نویسی وہ صحافیانہ جست تھی جس نے انہیں صحافی کی حیثیت سے پہچان دی۔ 1988 میں ‘نیشن’ میں انہوں نے لفظوں کے اشتقاق کے بارے میں کالم شروع کیا۔ مختلف زبانوں کے الفاظ میں باہمی رشتے اور ان کی صورتوں کے اس موضوع پر تحریروں کا یہ سلسلہ جاری رکھنے کے لیے انہوں نے مطالعے کو بھی وسعت دی اور اس موضوع کے بارے میں دنیا جہان سے ڈکشنریاں اور کتابیں اکٹھی کیں۔

اخبار میں اور اس سے باہر بھی بعض لوگوں کی اس طرح کی رائے سے کہ ’یہ کالم کون پڑھتا ہے؟ یا کتنے لوگ اسے پڑھتے ہیں؟  خالد احمد آزردہ بھی ہوتے اور مایوس بھی لیکن  جلد ہی وہ ان دوستوں کی وجہ سے اس کیفیت سے نکل آتے جنہیں ان کے کالم پسند تھے۔ ان دوستوں میں سلیم صاحب سرفہرست تھے جنہیں لفظوں سے ہمیشہ گہری دل چسپی رہی ہے۔ وہ خالد صاحب کے اس کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ خالد احمد کی کتاب ’ دی برج آف ورڈز‘ پر اپنے تبصرے میں انہوں نے لکھا:

خالد احمد اپنی تحقیق سے دوسروں پر رعب ڈالنا نہیں چاہتے تاہم بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ اس موضوع پر یہ بہت قرینے کی کتاب ہے اور  اس میں ہمیں اردو پنجابی، دوسری پاکستانی اور ایشیائی یورپی زبانوں میں مستعمل بعض لفظوں کے بارے میں ایسی معلومات ملتی ہیں جو چونکا دینے والی ہیں… اخباری کالم طوالت یا عالمانہ حاشیہ بند مضمون پردازی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ تھوڑی سی جگہ میں استدلال کے سلسلے کو جوڑے رکھنا، بات سے بات بلکہ لفظ سے لفظ نکالتے جانا اور وہ بھی اس طرح کے قارئین کی دل چسپی قائم رہے کچھ سہل نہیں لیکن خالد احمد کا قریب قریب ہر کالم خواندنی ہے۔’

خالد صاحب کے کالم پر سلیم صاحب انہیں فیڈ بیک بھی دیتے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو:

‘میں سنسکرت لفظ ‘اودر’ پر پہلے بات کر چکا ہوں۔ میرے دوست محمد سلیم الرحمٰن نے اس کے کچھ مزید اشارے دیے ہیں۔ یہ لفظ ‘دمودر’ میں شامل ہے۔ یعنی ایسا شخص جس کا پیٹ یا معدہ کسی رسی سے بندھا ہو۔ میں نے اسے لاطینی لفظ ‘اتر’ سے جوڑا تھا۔ اسی دوران ہم نے اس سے منسلک لفظ uterus (رحم مادر) دریافت کیا تھا۔ سلیم صاحب نے ایک اور لفظ Hysterectomy کا یونانی ماخذ ڈھونڈا ہے۔ اس کے معانی رحم مادر سے کاٹ کر نکالنا ہے۔’

مولانا محمد حسین آزاد کی ‘سخندان فارس’ خالد احمد کی پسندیدہ کتاب تھی۔ سلیم صاحب نے ان کی توجہ سراج الدین علی خاں آرزو کی ‘نوادرالالفاظ’ کی طرف دلائی  کہ ان کے خیال میں وہ آزاد اور مستشرقین سے بہت پہلے سنسکرت اور فارسی میں گہرے روابط کی نشان دہی کرچکے تھے۔

سلیم صاحب کے بعد ایک بڑے صحافی سے خالد صاحب کے تعلقات پر بات ہو جائے۔ یہ مظہر علی خان ہیں جن سے خالد احمد زمانہ طالب علمی سے واقف تھے۔ ان کی تحریر کی لذت سے پہلے وہ ان کی تقریر کی لذت سے آشنا ہوئے اور اس دبدھا میں پڑے کہ مظہر علی خان بڑے مقرر ہیں یا ان کا بیٹا طارق علی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد وہ ڈان کے ایڈیٹر کی حیثیت سے روس گئے تو خالد احمد وہاں تھرڈ سیکرٹری تھے۔ مظہر علی خان کی جچی تلی گفتگو نے انہیں متاثر کیا۔

1976 میں وہ دفتر خارجہ میں سیکشن افسر تھے۔ سوویت ڈیسک ان کے پاس تھا۔اس زمانے میں مظہر علی خان ویو پوائنٹ کے ایڈیٹر تھے۔  ان  کے بارے میں آئی بی کی ایک سمری خالد صاحب کی نظر سے گزری جس پر ذوالفقار علی بھٹو نے ایک فقرہ لکھا تھا جس کا مقصد خالد احمد کے خیال میں شاید آئی بی کو اشارہ دینا تھا۔

فقرہ کچھ یوں تھا:

“A dyed in the wool communist”

انگریزی محاورے کے مطابق اس سے مراد کٹر کمیونسٹ تھی جس کو آئی بی والوں نے ۔۔۔

“A died in the wool”

لکھ کر ہر فائل میں دہرانا شروع کر دیا۔

مظہر علی خان کے پاکستان ٹائمز کے لیے اداریے کتابی صورت میں شائع ہوئے تو خالد احمد نے انہیں شائستہ استدلال کا نمونہ قرار دیا اور لکھا کہ اشتراکی سخت گیری ان میں نظر نہیں آتی اور وہ ہمیشہ  استدلال اور اعتدال کے ساتھ لکھتے تھے اور ان کے اداریے ملک کے حقیقی مفادات کا بڑی ذہانت سے دفاع کرتے تھے۔

 خالد احمد کا صحافی کی حیثیت سے مظہر علی خان سے براہ راست تعلق اس وقت پیدا  ہوا جب انہوں نے ویو پوائنٹ میں دو سال ہفتہ وار کالم لکھا۔ ویو پوائنٹ اور اس کے ایڈیٹر دونوں کے بارے میں اپنی پسندیدگی کا انہوں نے بارہا اظہار کیا۔

اس تعلق کو نئی جہت اس وقت ملی جب 1991ء میں عراق نے کویت پر حملہ کیا۔ مظہر علی خان نے اس کی مخالفت کی۔ خالد احمد کی بھی یہی سوچ تھی۔ لیکن دوسری طرف پاکستان میں صدام حسین کو ہیرو کا درجہ مل گیا تھا۔ آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ صدام کی حمایت کر رہے تھے۔ مذہبی جماعتیں اور پریس کا بڑا حصہ بھی ان کے ساتھ تھا۔ جبکہ نواز شریف کی حکومت دوسری طرف کھڑی تھی۔ خالد احمد کے دفتر میں بھی صدام حسین کے بڑے حمایتی تھے اس لیے ان کو بے بھاؤ کی سننی پڑتی تھیں اور انہیں امریکی ایجنٹ تک کہا گیا۔ چند جوشیلے انقلابیوں نے ایڈیٹر کے دفتر کی تلاشی بھی لی۔ اس ماحول میں دفتر سے باہر جس صحافی نے ان کا ساتھ دیا اس کی شہرت ہمیشہ  امریکی پالیسیوں کے ناقد کی رہی تھی۔

خالد احمد نے لکھا:

‘فرنٹیئر پوسٹ میں صدام حسین کے حمایتی اسلم بیگ کی بجائے نواز شریف کی حمایت کرنے پر میرے ساتھی بھی میرے خلاف ہو گئے تھے۔ ان دنوں مظہر علی خان واحد صحافی تھے جنہوں نے میری حمایت کی اور میری ڈھارس بندھانے کے لیے مجھے اپنے گھر بلایا۔ میں اس نرم خو شخص کو کبھی نہیں بھول سکتا جو شاید میری زندگی میں آنے والا مضبوط ترین صحافی تھا۔’

ایک بڑے ادیب اور صحافی سے خالد احمد کی داستان  آپ نے جان لی۔ اب انگریزی میں پاکستان کے سب سے ممتاز شاعر توفیق رفعت سے ان کے ساتھ کا قصہ بھی سن لیں۔

خالد احمد کی ایک جہت جس کے بارے میں زیادہ لوگ نہیں جانتے وہ ان کی انگریزی شاعری ہے۔ 1968 میں جب خالد احمد کی عمر پچیس سال تھی ‘ پرسپکٹیو’ رسالے میں توفیق رفعت نے چھ  نوجوان شاعروں کی نظموں کا انتخاب اپنے تعارفی نوٹ کے ساتھ شائع کیا  جس میں خالد احمد کی سات نظمیں شامل تھیں۔

توفیق رفعت سے ان کا ربط ضبط گورنمنٹ کالج کے زمانے سے تھا جب وہ شاعری میں ان سے رہنمائی لیتے تھے۔ ان وقتوں کی ایک نظم جس میں توفیق رفعت کا قلم لگا تھا اسے خالد احمد نے یادگار کے طور پر سینت کر رکھا تھا۔اس وقت کسے خبر تھی کہ اس  نوجوان نے  آگے چل کر توفیق رفعت کے کیے گئے بلھے شاہ کی شاعری کے ترجمے کا مفصل تعارف لکھنا ہے۔

1978ء میں خالد احمد سرکاری نوکری چھوڑ کر لاہور آگئے۔ بے روز گاری کے ان دنوں میں انہیں معلوم ہوا کہ توفیق رفعت پنڈی سے لاہور منتقل ہو گئے ہیں اور مراتب علی روڈ پر رہائش اختیار کی ہے۔ اس کٹھن دور میں لاہور میں  توفیق رفعت سے ملاقاتوں کا گہرا نقش خالد احمد کے ذہن پر ہمیشہ رہا  کیوں کہ ان کے بقول یہ ان کے برے دن تھے اور  فراخ دل توفیق رفعت کے گھر کے دروازے خالد احمد کے لیے کھلے تھے۔ ہفتے میں کم از کم ایک دن رات کا کھانا وہ ان کے ہاں کھاتے۔ توفیق رفعت کی محبت ہمیشہ ان کے ساتھ رہی جس کا بھرپور اظہار ان کے بارے میں ذاتی یادداشت سے بھی ہوتا ہے۔

اب تک ہم نے جن تین ہستیوں کا ذکر کیا ہے ان کے ساتھ تعلق میں محبت، خلوص، احترام اور مروت کے جذبے  کار فرما تھے لیکن اس میں خالد صاحب کی طرف سے تشکر اور احسان مندی کے اضافی جذبوں کا اظہار بھی تھا۔ یہ تمام لوگ بہر حال اپنے اپنے شعبے میں معروف تھے۔

 اب آخر میں ایک اجنبی، بے نشاں اور گمنام شخص کا تذکرہ جن کے بارے میں خالد احمد نے لکھا تھا کہ زندگی میں ان سے زیادہ کسی شخص کا ان کی زندگی پر اثر نہیں۔ یہ بات میں پڑھ چکا تھا لیکن ذہن سے اتر گئی تھی، اسے دوبارہ دل و دماغ میں خالد احمد کے کزن اور نامور ٹیسٹ کرکٹر ماجد خان نے اجاگر کیا۔

زمان پارک میں خالد احمد کی نمازِ جنازہ کے بعد تدفین کے لیے میاں میر قبرستان جاتے ہوئے رستے میں ماجد خان نے بتایا  کہ خالد احمد کی میت جس قبرستان میں جارہی ہے یہ زندگی میں اس کی پہلی درس گاہ بھی ہے  کیوں کہ یہاں وہ بچپن میں ایک ماسٹر صاحب سے پڑھنے آتا تھا۔

خالد احمد نے دھرم پورہ سے جڑی یادوں کے بیان میں ماسٹر غلام حسن کا ذکر کیا ہے جنہوں نے حجرے کو کلاس روم میں بدل دیا تھا۔ وہ ریاضی کے بہت  اچھے استاد تھے اور اردو ادب اور کرکٹ سے بھی انہیں بڑی دل چسپی تھی۔ ہائی سکول میں داخلے کے بعد اس قبرستان سے گزر کر  خالد صاحب عارف ہائی سکول جاتے تھے۔ اسی قبرستان میں ان کے والدین سپردِ خاک ہوئے۔ سوموار کے دن ہم ان کی قبروں کے سامنے سے گزر کر ہی  ان کے اس بالیاقت  فرزند کی قبر کو مٹی دینے گئے جس نے کبھی مجھے بتایا تھا کہ اگر انہیں اپنی قبر پر کتبے کے لیے کوئی  شعر منتخب کرنا پڑے تو وہ میر تقی میر کا یہ شعر ہو گا:

سرسری تم جہان سے گزرے

 ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp