آزاد کشمیر: احتجاج سے روکنے کے قانون کیخلاف مزاحمت، غیرمعینہ مدت تک کے لیے ہڑتال کا اعلان

بدھ 20 نومبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آزاد کشمیر میں خود مختار کشمیر کی کے نعرے کی حامی 9 تنظیموں کے اتحاد کی اپیل پر بدھ کے روز بھی پونچھ ڈویژن میں کھائی گلا اور  تراڑ کھل میں آزاد کشمیر کی حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے آرڈینیس پیسفل اسمبلی پبلک آرڈر آرڈیننیس کے خلاف اور اپنے ساتھیوں کی رہائی کے لیے احتجاج کیا، یہ احتجاج مجموعی طور پر پرامن رہا،البتہ احتجاج ختم ہونے کے بعد پولیس نے اس اتحاد کے ایک رہنما زبیر شریف کو گرفتار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: راولاکوٹ: عوام کو احتجاج سے روکنے کے لیے جاری آرڈیننس کے خلاف مارچ، پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں

 اپنی گرفتاری کے وقت انہوں نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے پیسفل اسمبلی پبلک آرڈر آرڈئنیس کو کالا قانون قرار دیا اور کہا کہ اس کے خاتمے تک جدوجہد جارے رکھی جائے گی، اس دوران باغ میں بھی اس اتحاد میں شامل خود مختار کشمیر کی حامی تنظیموں کا اجلاس ہوا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ وہ اس قانون کی واپسی تک احتجاج جاری رکھیں گے۔

‎اسی اتحاد نے منگل کو اپنے ساتھیوں کی رہائی، ایف آئی آرز ختم کرنے اور  پیسفل اسمبلی پبلک آرڈر آرڈئینیس کے خلاف  راولاکوٹ شہر میں احتجاج  کیا تھا، اس احتجاج میں آرڈینیس اور ایف آئی آرز کی کاپیاں نذر آتشس  کی گئیں۔

 پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسوں گیس، ہوائی فائرنگ اور لاٹھی چارج کیا۔مظاہرین نے بھی جواب میں پولیس پر پتھراؤ کیا، ان جھڑپوں میں جے کے ایل ایف کے اپنے دھڑے کے سربراہ  سردار محمد صغیر خان زخمی ہوئے تھے، اس اتحاد نے منگل کی شام کو احتجاج ختم کرنے سے پہلے  یہ اعلان کیا تھا کہ بدھ کو پونچھ کےعلاقے کھائی گلہ میں احتجاج کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: آزادکشمیر میں احتجاج کی آڑ میں کیا ہوتا رہا؟ دلخراش ویڈیو منظر عام پر آگئی

اتحاد نے اعلان کیا تھا کہ 21 نومبر کو  کوٹلی، 22 نومبر  کو راولاکوٹ اور مظفرآباد اور اس کے بعد پلندری میں  بھی احتجاج کیا جائے گیا۔ اس اتحاد نے حکومت کو  آرڈینیس واپس لینے، ایف آئی آر ختم کرنے اور ان کے ساتھیوں کی رہائی کے لیے 9 دسمبر تک وقت تک دیا، اتحاد کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے تو 10 دسمبر کو آزاد کشمیر بھر میں پہیہ جام ہڑتال کی جائے گی اور بیرون ملک بھی احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔

‎آزاد کشمیر کی حکومت نے  29 اکتوبر کو  پیسفل اسمبلی ، پبلک  آرڈر  آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت صرف  رجسٹرڈ جماعتیں یا تنظیمیں ہی ڈپٹی کمشنر کی پیشگی اجازت کے بعد جلسہ، جلوس یا احتجاج  کرسکتے ہیں  جبکہ غیر رجسرڈ جماعتیں یا تنظیمیں جلسہ جلوس یا احتجاج نہیں کرسکتے ہیں۔

‎اس سے قبل  گزشہ ماہ اکتوبر میں بعض مذہبی جماعتوں نے ہجیرہ میں اپنے ایک اجتماع  میں جے اے اے سی میں شامل ان  اراکین کو دھمکی دی تھی جو خود مختار کشمیر کے حامی ہیں۔ اسی پس منظر میں  پونچھ میں خود مختار کشمیر کے حامی 9 تنظیموں نے ایک اتحاد قائم کیا جس میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ  ( جے کے ایل ایف) اور جموں کشمیر نیشنل اسٹوڈینٹس فیڈریشن  (جے کے این ایس  ایف )کے 6 دھڑے اور جموں کشمیر نیشنل عوامی پارٹی  ( جے کے این اے پی) شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: راولاکوٹ جیل سے فرار قیدیوں کی تلاش میں مدد، کروڑوں روپے انعام کا اعلان

اس اتحاد نے 16 نومبر کو حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے پیسفل اسمبلی پبلک آرڈیننس کے خلاف راولاکوٹ میں احتجاج کیا جس کے بعد پولیس نےجے کے این اے پی  کے سربراہ سردار لیاقت کو ان کے  3   پولیس نے متعدد افراد کے خلاف ایف آئی آرز درج کیں۔

‎واضع رہے منگل کو آزاد کشمیر کی ہائیکورٹ نے اس آرڈیننیس کے خلاف 2  الگ الگ رٹ پٹیشنز خارج کردیں۔

غیرمعینہ مدت کے لیے پہیہ جام، شٹرڈاؤن اور مکمل لاک ڈاون کا اعلان

‎اسی دوران آزاد  کشمیر میں  جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ( جے اے اے سی) نے  اپنے مطالبات کے حق میں  آزاد کشمیر بھر میں   5 دسمبر 2024 کو غیرمعینہ مدت کے لیے پہیہ جام، شٹرڈاؤن اور مکمل لاک ڈاون کا اعلان کیا، یہ اجلاس منگل کی راولاکوٹ میں ہوا جو  رات گئے تک جاری رہا۔

 اس اجلاس میں  جے اے اے سی ) کے اراکین شریک ہوئے۔ اس سے پہلے جے اے اے سی نے 25 ستمبر کو یہ اعلان کیا تھا کہ وہ  اپنے مطالبات کے حق میں 23 جنوری کو لانگ مارچ کریں گے لیکن رات گئے تک جارے رہنے والے اجلاس میں ردوبدل کیا گیا ہے۔ جے اے اے سی کے پہلے 10 مطالبات تھے جن میں پاکستان کی حکومت نے 2 اہم مطالبات  منظور کیے تھے لیکن رات دیر تک جاری رہنے والے اجلاس میں 4 اور مطالبات پیش کیے  گئے جن میں مفت صحت کی سہولت، مفت تعلیم، نوجوانوں کے لیے روزگار اور انٹرنیشنل ائیرپورٹ شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آزاد کشمیر، بجلی سستی ہونے کے باوجود 70 فیصد لوگوں نے بل کیوں نہیں جمع کروائے؟

‎واضع رہے کہ رواں سال مئی میں جے اے اے سی کے طرف سے  اپنے مطالبات کے حق میں  شٹر ڈاون، پہیہ جام اور احتجاج  کیا گیا، یہ احتتجاج 4 روز  تک جاری رہا  تھا۔ ان کے طرف سے پیش کیے گئے 10 مطالبات میں آٹے کی سبسڈی میں اضافہ، بجلی کی نرخوں میں کمی اور آزاد کشمیر میں سیاسی اور انتظامی اشرافیہ کی مراعات میں کمی شامل تھی۔

اس احتجاج کو ختم کرانے کے لیے وزیراعظم  پاکستان شہباز شریف نے مداخلت کی تھی اور  13 مئی کو آٹے پر سبسیڈی بڑھانے کے لیے فوری طور پر 23  ارب روپے آزاد کشمیر کی حکومت کو منتقل کیے اور ساتھ ہی بجلی کی نرخوں میں کمی گئی جس کے بعد یہ احتجاج  ختم کیا گیا۔  آ

زاد کشمیر کی حکومت نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ  سیاسی اور انتظامی اشرافیہ کی مراعات کی کمی کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن بنائے گی لیکن 6 ماہ سے زیادہ عرصہ گذر گیا آزاد کشمیر کی حکومت یہ کمیشن بنانے میں ناکام رہی ہے۔

حکومت نے یہ بھی کہا تھا کہ جے اے اے سی کے تمام اہم مطالبات تسلیم کیے گئے ہیں اور دیگر مطالبات پر بھی  پیشرفت کی جائے گی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اس دوران  دیگر مطالبات تسلیم کرانے کے لیے  ایک طرف جے اے اے سی کے اپنے اجلاس بھی جاری رہے اور دوسری طر ف حکومت کے ساتھ بھی بات چیت جاری رہی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp