سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے لاپتا بچوں کے معاملے پر تمام آئی جیز اور سیکریٹریز داخلہ کو ا آئندہ ہفتے ہونے والی سماعت پر طلب کرلیا ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے لاپتا بچوں کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت کی۔ دوران سماعت سپریم کورٹ آئینی بینچ نے کوئٹہ میں بچے کے اغوا کا بھی نوٹس لے لیا اور اس کی بازیابی پر حکام سے رپورٹ بھی طلب کرلی۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ: مقامی تاجر کا بیٹا اغوا، انجمن تاجران کا کل شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کوئٹہ میں 6 دن سے ایک مغوی بچے کو ڈھونڈا نہیں جارہا، احتجاج سے پورا کوئٹہ جام ہوچکا لیکن حکومت کو پرواہ نہیں، کوئٹہ میں اسکول کے بچوں نے بھی جلوس نکالا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا خیبرپختونخوا میں سیکس ٹریفکنگ کو قانونی قرار دے دیاگیا ہے، اپنی رپورٹ میں خیبرپختونخوا نے سیکس ٹریفکنگ کو زیرو لکھا ہے، زیرو سیکس ٹریفکنگ کیسے ہوسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میرے گمشدہ بچے کی بازیابی کا کیس ختم کردیا جائے، غریب خاتون کی سندھ ہائیکورٹ سے استدعا
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا کسی صوبے میں کوئی ادارہ یا کمیشن ہے جو مغوی بچوں پر کام کررہا ہوں، 18ویں آئینی ترمیم کے بعد اب تو صوبوں کے پاس اختیارات ہیں۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ بلوچستان حکومت ایک بچہ تلاش نہیں کرپا رہی۔
جسٹس مسرت ہلالی بولے کہ بچوں کا اغوا اہم مسئلہ ہے، اس پر سرکاری وکلا کی تیاری نہیں ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 2108 سے کیس چل رہا ہے، اب تک بچے اغوا ہو رہے ہیں، ہر دوسرا مقدمہ بچوں کے اغوا کا آتا ہے، سپریم کورٹ نے بچوں کے اغوا پر کمیٹی بنائی جس نے اج تک کام نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: نابالغ بھکاری بچوں کو مبینہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والا اسلام آباد پولیس کا اہلکار گرفتار
درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کی کمیٹی آج تک بنی ہی نہیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ بلوچستان نے کہا کہ عدالت میں بچوں کے اغوا پر رپورٹ جمع کروا دیتا ہوں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر بولے، ’ہمیں رپورٹ نہیں چاہیے، ہمیں بچوں کے اغوا کا تدارک چاہیے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ میں بینچ کے سربراہ سے درخواست کروں گا تمام آئی جیز کو بلایا جائے، یہ ملک میں ہو کیا رہا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ خیبرپختونخوا کی رپورٹ میں ہر چیز پر دھول جھونکی گئی ہے، ہر طرف سے بارڈر کھلا ہے تو کیا ایسی گڈ گڈ رپورٹ ممکن ہےْ، قانون کی عملداری یقینی بنائیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی تعلیمی اداروں میں جنسی زیادتی و ہراسانی کے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں؟
جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ کتنے بچے اغوا ہوئے اور کتنے بازیاب، اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ دیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایف سی پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، ان کا سوشل ویلفیئر میں کیا کردار ہے۔
جسٹس حسن اظہر نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں بچے ٹریفک سگنلز پر بھیک مانگتے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان بولے کہ بھکاری بھیجنے میں تو اب ہم انٹر نینشل ہو چکے ہیں، بیرون ملک بھکاریوں کا جانا کتنے شرم کی بات ہے۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 28 نومبر تک ملتوی کردی۔
آڈیوز لیک کمیشن کیس: وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب
آئینی بینچ نے آڈیوز لیک کمیشن پر وفاقی حکومت کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو آڈیوز لیک کمیشن پر حکومت سے ہدایت لیکر آگاہ کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
کیس کہی سماعت کے دوران، جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا آڈیو لیک کمیشن لائیو ایشو ہے، کمیشن کے چیئرمین ریٹائر ہوچکے ہیں، کمیشن کے ایک اور رکن سپریم کورٹ کے جج بن چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس منصور کی ججز کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت، 63 اے نظرثانی اور آڈیو لیک کمیشن کیس سماعت کے لیے مقرر
اٹارنی جنرل نے حکومت سے ہدایات لینے کے لیے عدالت سے مہلت کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ معلوم کرنے دیں کہ کیا حکومت نیا کمیشن بنانا چاہتی ہے، آڈیو لیک کے معاملہ میں قانونی نقطہ تو موجود ہے۔
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ اگر نیا کمیشن بنتا ہے تو یہ مقدمہ تو غیرمؤثر ہوجائے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کمیشن کی تشکیل کا کابینہ کا فیصلہ آج بھی موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آڈیو لیکس مقدمہ پر کارروائی مستقبل میں کیوں ضروری ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا حکومت کمیشن کے لیے ججز کی نامزدگیاں چیف جسٹس کی مشاورت سے کرے گی، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ ایک قانونی سوال ہے، قانون مشاورت کی پابندی نہیں کرتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عدالت کی اتھارٹی کو انڈر مائین ہونے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کمیشن کے لیے جج دینے سے انکار کردیں تو پھر کیا ہوگا۔ بعدازاں، آئینی عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتہ تک ملتوی کردی۔
مرکزی شاہراوں پر ہیوی ٹریفک کیخلاف درخواست، وفاقی و صوبائی حکومتوں سے جواب طلب
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی بینچ نے ملک کی مرکزی شاہراوں (جی ٹی روڈز) پر ہیوی ٹریفک کیخلاف درخواست پر بھی سماعت کی۔
یہ بھی پڑھیں: محفوظ ڈرائیونگ پر وی لاگز بنانے والے ٹریفک انسپیکٹر سوشل میڈیا پر وائرل
دوران سماعت درخواست عباس آفریدی نے عدالت کو بتایا کہ روزانہ 70 لوگ ٹریفک حادثات میں مرتے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ لوگ لٹک لٹک کر کیوں سفر کرتے ہیں۔
بعدازاں، عدالت نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے درخواست منظور کرلی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل اور چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کردیے۔ عدالت نے این ایچ اے کو بھی نوٹس جاری کردیا۔ کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔