سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 8 اکتوبر 2005 کے زلزلہ متاثرین کیس میں حکومتوں سے پراگرس رپورٹ طلب کرلی ہے۔ جسٹس امین الدین خان سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ بتایا جائے متاثرین آبادی کاری اور منصوبوں کی تاخیر کا ذمہ دار کون ہے؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ 2005 کا زلزلہ آئے 19 سال گزر چکے ہیں، اتنے عرصہ میں بچے جوان اور جوان بوڑھے ہو چکے ہوں گے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ حکام بتائیں کہ متاثرین کی بحالی کے لیے ابتک کیا کام کیا؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ زلزلہ کے بعد گھروں کی تعمیر کے لیے جنگلات زمین کی کیوں الاٹ کی گئی؟ زلزلہ سے جہاں گھر گرے وہیں دوبارہ تعمیر کر دیتے۔ حکومت تعمیرات کے چکر میں پڑنے کے بجائے متاثرین کو رقم دے دیتی، متاثرین کو رقم ملتی تو وہ ابتک اپنے گھر خود بنا چکے ہوتے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ زلزلہ متاثرین کی تباہیاں میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں، نشتن، گفتن، برخاستن سے زیادہ زلزلہ متاثرہ علاقوں میں کچھ نہیں ہوا۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ زلزلہ متاثرین کی بحالی وفاق اور صوبے کے تعاون سے ہونی تھی، قدرتی آفات کو روک نہیں سکتے لیکن لڑ تو سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: لاپتا بچوں کا معاملہ، سپریم کورٹ آئینی بینچ نے تمام آئی جیز اور سیکریٹریز داخلہ کو طلب کرلیا
جسٹس نعیم اختر افغان نے مزید کہا کہ محکموں کی بیڈ گورننس اور عدم تعاون سے متاثرین مشکلات جھیل رہے ہیں۔ بیڈ گورننس کی وجہ سے معاملات عدالتوں میں آتے ہیں۔ محکمے اپنا کام کریں تو عدالتوں میں کیسز نہ آئیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ زلزلہ سے کتنے لوگ متاثر ہوئے، متاثرین کے لیے ابتک کتنے گھر بنائے گئے؟ وفاقی اور صوبائی حکومت کی زلزلہ متاثرہ علاقوں میں بحالی کی پرفارمنس کیا ہے؟
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ متاثرین کے لیے کتنے فنڈز آئے، متاثرین کے فنڈز میں کتنا کہاں پر خرچ ہوا، عدالتی سوالات پر جامع رپورٹ دی جائے۔
جنگلات کی کٹائی سے متعلق کیس
آئینی بینچ نے جنگلات کی کٹائی سے متعلق کیس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے رپورٹ طلب کرلی۔ جسٹس امین الدین خان سربراہی میں 6 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔ عدالت نے کہا کہ بتایا جائے جنگلات کے کتنے رقبہ پر قبضہ کیا گیا، بتایا جائے جنگلات کے کتنے رقبہ پر قبضہ واگزار کرایا گیا؟
عدالت نے حکم دیا کہ جنگلات کی کٹائی روکنے کے کیا اقدامات اور ذمہ داروں کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا، جنگلات بڑھانے کے لیے ابتک کیا اقدامات لیے گئے؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ مارگلہ ہلز کے پیچھے فارم ہاؤس اور ہاؤسنگ سوسائیٹیز بن رہی ہیں، جنگلات کی کٹائی اور جنگلات رقبہ پر قبضہ کا بہت بڑا مافیا ہے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: ججز کی سینیارٹی کا اصول کسی اور مقدمے میں طے کریں گے، آئینی بینچ کا فیصلہ
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سرکاری حکام کی ملی بھگت سے جنگلات رقبہ پر تجاوزات اور کٹائی ہوتی ہے۔ جنگلات کی زمین فالتو نہیں دیگر مقاصد کے لیے الاٹ کی جائے۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ جنگلات کی زمین کسی دوسرے مقصد کے لیے الاٹ نہیں ہوسکتی۔
ججز کی ٹرانسفر پوسٹنگ سے متعلق کیس
ججز کی ٹرانسفر پوسٹنگ سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ججز کی ٹرانسفر پوسٹنگ پالیسی ہائیکورٹ کا کام ہے۔
درخواست گزار میاں داؤد نے کہا کہ ایک سال میں 3 چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ میں تبدیل ہوئے، ہر چیف جسٹس نے ججز کو ٹرانسفر کیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ داؤد صاحب کیا ہائیکورٹ آزاد ہے یا نہیں؟ میاں داؤد نے جواب دیا کہ ہائیکورٹ آزاد ہے لیکن پالیسی کے لیے ہدایات ضروری ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ آزاد ہے تو ان کو اپنا کام کرنے دیں، ٹرانسفر پوسٹنگ پالیسی ہونے سے متفق ہوں لیکن یہ ہمارا کام نہیں۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ایک سال میں 3 چیف جسٹس آئے تو 3 مرتبہ ٹرانسفر پوسٹنگ ہوئی۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ٹرانسفر پوسٹنگ ہر چیف جسٹس کا اپنا اختیار ہوتا ہے، ہر جج بڑے شہر میں بیٹھنے کی خواہش رکھتا ہے، آپ کیوں انتظامی کاموں کے پیچھے پڑ گئے۔ درخواست پڑھی تو خیال آیا یہ میاں داؤد کی ہوگی۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: ججز کی سینیارٹی کا اصول کسی اور مقدمے میں طے کریں گے، آئینی بینچ کا فیصلہ
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ داؤد صاحب آج ہم آپ کی بات نہیں مان رہے۔ درخواست گزار نے کہا کہ پھر عدالت اجازت دے کہ ہائیکورٹ جا سکوں۔ عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔
اقلیتی نمائندوں کا الیکشن اقلیتوں تک محدود کرنے کی درخواست خارج
آئینی بینچ نے اقلیتی نمائندوں کا الیکشن اقلیتوں تک محدود کرنے کی درخواست خارج کردی۔ وکیل جے سالک نے کہا کہ پارلیمنٹ میں اقلیتوں کے صرف نمائندے ہیں۔ اقلیتوں کو اپنے ووٹ سے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق دیا جائے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ لفظ اقلیت درست نہیں، اقلیت کی جگہ نان مسلم کہا جائے، نان مسلم بھی برابر کے شہری اور برابر کے حقوق رکھتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین میں بنیادی حقوق میں شہریوں کا لفظ لکھا ہے، نان مسلم بھی شہری ہی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا بھارت میں مسلم ووٹر صرف مسلمانوں کو منتخب کرتے ہیں؟ کیا دنیا کے کسی ملک میں ایسا ہوتا ہے،کوئی مثال بتا دیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایسی تجویز سے کیوں شہریوں میں تفریق پیدا کرنا چاہتے ہیں، ایسی تجاویز سے شہریوں میں بھائی چارہ ختم اور تفریق جنم لے گی۔
مزید پڑھیں :سپریم کورٹ میں کام کی رفتار تیز، آئینی بینچ نے 3 روز میں کون سے اہم مقدمات سنے؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ نان مسلم کو جنرل الیکشن لڑنے کی ممانعت نہیں، اگر کوئی قانون تبدیل کرانا ہے تو اپنے نمائندوں سے قانون سازی کروا لیں۔
کم عمر بچوں کو زندگی گزارنے کی تعلیم دینے سے متعلق درخواست
کم عمر بچوں کو زندگی گزارنے کی تعلیم دینے سے متعلق آئینی درخواست پر کیس کی سماعت 6 رکنی آئینی بینچ نے کی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل اور فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ یہ درخواست پاکستان کے معصوم بچوں کی جانب سے ہے، اسکولوں میں بچوں کو زندگی گزارنے کی تعلیم نہیں دی جاتی۔ اکثر بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں قریبی رشتہ دار ہی ملوث ہوتے ہیں۔ قریبی عزیز ہونے کی وجہ سے یہ واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں یہ باتیں تعلیمی نصاب میں شامل کی جائیں؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جی ہر بچے کو اس بارے تعلیم دی جانی چاہیے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 4 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: ججز کی سینیارٹی کا اصول کسی اور مقدمے میں طے کریں گے، آئینی بینچ کا فیصلہ
پاکستانی خواتین سے شادی کرنے والے غیر ملکی شہریوں کی پاکستانی شہریت کے لیے درخواست دائر
عدالت عظمیٰ میں پاکستانی خواتین سے شادی کرنے والے غیر ملکی شہریوں کی پاکستانی شہریت کے لیے درخواست ایڈووکیٹ سید معاذ شاہ نے دائر کی ہے۔
شریعت اپیل میں وفاق، وزارت داخلہ و دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔ استدعا کی گئی ہے کہ شرعی عدالت پاکستانی خواتین کے غیر ملکی شوہروں کو شہریت دی جائے، شرعی عدالت نے پاکستانی خواتین کے غیر ملکی خاوند کو شہریت نہ دینے کا قانون غیر شرعی قراردیا تھا۔
وفاقی حکومت نے شرعی عدالت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ پاکستانی خواتین کے غیر ملکی شوہر عدالتوں سے انصاف کے منتظر ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے معاملہ پر 2006 میں فیصلہ دیا، وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ پر 2008 سے سپریم کورٹ کا حکم امتناع ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد شرعی اپیل پر حکم امتناع ایک سال سے زیادہ نہیں ہو سکتا، سپریم کورٹ میں معاملہ 16 سال سے پینڈنگ پڑا ہے، وفاقی حکومت کی شرعی عدالت کے خلاف اپیل مسترد کی جائے۔ حکومت کو پاکستانی خواتین کے شوہروں کو شہریت دینے کا حکم دیا جائے۔