جے آئی ٹی میں ایجنسیوں کے لوگ کیسے تحقیقات کر سکتے ہیں؟ لاہور ہائیکورٹ

بدھ 12 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے کارکن علی بلال عرف ظل شاہ قتل کیس سمیت 10 مقدمات کی تحقیقات کے لیے قائم جے آئی ٹی  کو کالعدم قرار دینے کی درخواست پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے فریقین سے جواب طلب کرتے ہوئے استفسار کیا ہے کہ پولیس کے علاوہ جے آئی ٹی میں ایجنسیوں کے لوگ کیسے تحقیقات کرسکتے ہیں؟

پاکستان تحریک انصاف کے کارکن علی بلال عرف ظل شاہ قتل سمیت 10 مقدمات کی تحقیقات کے لیے قائم جے آئی ٹی کالعدم قرار دینے کی درخواست کی سماعت لاہور ہائیکورٹ میں ہوئی۔ تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری اور مسرت جمشید چیمہ کے وکلا سکندر ذوالقرنین اور ظفر اقبال منگن نے دلائل دیے۔

تحریک انصاف کے وکلاء نے مؤقف اپنایا کہ پولیس نے عمران خان سمیت  11رہنماؤں کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد 10مقدمات درج کیے، ان مقدمات کی تحقیقات کے لیے حکومت پنجاب کی ہدایت پر غیر قانونی طور پر جےآئی ٹی قائم کی۔

سماعت کے دوران فواد چوہدری نے کہا کہ پہلے ان سے پوچھا جائے کہ کس قانون کے تحت دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ دہشت گردی کےعلاوہ دیگر مقدمات میں دہشت گردی کی دفعات نہ لگائی جائیں۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ دہشت گردی کی دفعات لگائی جاسکتی تھیں؟ 5 رکنی جےآئی ٹی کیسے تحقیقات کرے گی؟ پولیس کےعلاوہ جےآئی ٹی میں ایجنسیوں کے لوگ کیسے تحقیقات کرسکتے ہیں؟ ضمنیاں کیسے لکھی جائیں گی اور کون لکھے گا؟

جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ بتایا جائے وارنٹ گرفتاری پرعمل درآمد کے لیے وفاقی حکومت کو اطلاع دے کر اجازت لی گئی تھی؟ عدالت کے پاس بہت سارے سوالات ہیں جن کے جواب کے لیے حکومت پنجاب تسلی بخش جواب دے، فوج اور رینجرز کو بلانے اور جے آئی ٹی میں بٹھانے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا؟

جسٹس طارق سلیم شیخ نے پوچھا کہ جو ایس اوپیز بنائے گئے عدالت ان کا بھی جائزہ لے گی۔ اگر ان ایس او پیز میں کوئی کمی پائی گئی تو کالعدم نہیں کریں گے بلکہ ترمیم کا کہا جائے گا۔ عدالت چاہتی ہے کہ جے آئی ٹی کی کارروائی کرنے کے طریقہ کار کا معاملہ ایک مرتبہ ہی حل ہو۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے  بتایا کہ دہشت گردی کے معاملات کی تحقیقات کے لیے ایجنسیوں کے افراد کو شامل کرنے کے رولز موجود ہیں، جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ اسی رولز کے مطابق صوبائی حکومت خود سے جے آئی ٹی تشکیل نہیں دے سکتی، اس طرح کی جےآئی ٹی کی تشکیل کےلئے وفاقی حکومت سے اجازت ضروری ہے ، آگاہ کیا جائے کہ اس معاملے میں صوبائی حکومت نے کہاں اجازت کے لئے وفاق سے رجوع کیا ؟

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب غلام سرور نہنگ نے ریکارڈ عدالت میں پیش کیا، سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کابینہ کمیٹی نے کابینہ کی ہدایات کی روشنی میں کاروائی کی، کابینہ کمیٹی نےقانونی طریقہ کار کےمطابق جے آئی ٹی کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن جاری کیا۔۔

عدالت نے وفاقی حکومت، حکومت پنجاب اور دیگر فریقین سے جواب طلب کرلیا، جبکہ اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل کو بھی عدالتی معاونت کےلئے طلب کرلیا۔

عدالت نے کیس کی سماعت 17اپریل تک ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp