پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ بشریٰ بی بی کے خلاف ایف آئی آر ڈیرہ غازی خان میں درج کی گئی ہے۔ مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ بشریٰ بی بی نے لوگوں کو ورغلانے کے لیے نفرت انگیز بیان دیا۔ پولیس کے مطابق ملزمہ کے خلاف دفعہ 126 ٹیلی گراف ایکٹ اور دیگر قوانین کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں بشریٰ بی بی نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ عمران خان جب مدینہ ننگے پاؤں گئے اور واپس آئے تو باجوہ (سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ) کو کالز آنا شروع ہوگئیں، باجوہ کو کہا گیا کہ یہ آپ کس شخص کو لے کر آئے ہیں، ہمیں ایسے لوگ نہیں چاہئیں۔
مزید پڑھیں: بشریٰ بی بی، عمران خان کی کیسی قائمقام ثابت ہورہی ہیں؟
بشریٰ بی بی کے مطابق باجوہ کو کہا گیا ہم تو ملک میں شریعت ختم کرنے لگے ہیں اور آپ ایسے شخص کو لےکر آئے،کہا گیا ہمیں ایسے لوگ نہیں چاہئیں تب سے ہمارے خلاف گند ڈالنا شروع کردیا گیا، میرے خلاف گند ڈالا گیا، بانی پی ٹی آئی کو یہودی ایجنٹ کہنا شروع کیا گیا۔
ویڈیو بیان کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے بھی پی ٹی آئی قیادت کی تشویش پر اہلیہ بشریٰ بی بی کو سیاست سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔
پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے گزشتہ رات اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے پیش نظر 24 نومبر کے احتجاجی مارچ کو منسوخ کرنے اور بشریٰ بی بی کے پیدا کردہ تنازع پر غور کیا۔ پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کے مطابق، کمیٹی کے ارکان کی اکثریت عدالت کے فیصلے کی روشنی میں 24 نومبر کے احتجاجی مارچ کو منسوخ کرنے کے حق میں تھی۔ ان کا مؤقف تھا کہ حکومت سے بات چیت کو آگے بڑھنے دینا چاہیے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کے زوال میں بشریٰ بی بی کا مبینہ کردار، پاراچنار کا المناک واقعہ
پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ یہ آپشن (احتجاج کی کال ختم کرنے اور بات چیت میں آگے بڑھنے) عمران خان کو پیش کیے جائیں تاکہ وہ اس پر کوئی فیصلہ کریں۔ سیاسی کمیٹی کی سفارش کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کا وفد عمران خان سے ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل گیا تاہم ان کی ملاقات نہ ہو سکی۔
بعد ازاں وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور نے احتجاجی مارچ کے معاملے پر بات چیت کے لیے پشاور میں پارٹی رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا۔ پی ٹی آئی رہنما اور علی امین گنڈا پور کے مشیر بیرسٹر سیف نے رابطہ کرنے پر کہا کہ اگرچہ وہ سیاسی کمیٹی کے رکن نہیں، لیکن عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے پارٹی میں بات چیت ہو رہی ہے۔
بشریٰ بی بی کے سعودی عرب سے متعلق ویڈیو بیان سے پیدا ہونے والے سنگین تنازع پر پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی کمیٹی کے بیشتر ارکان خوش نہیں تھے اور انہوں نے اس کی مخالفت میں بات کی۔ تاہم وہ بشریٰ بی بی کے بیان کو کھل کر مسترد کرنے کا فیصلہ نہ کر سکے۔
مزید پڑھیں: بشریٰ بی بی نے عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے حوالے سے بیان کیوں دیا؟
کچھ رہنماؤں نے مشورہ دیا کہ پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ بشریٰ بی بی کے بیان سے فاصلہ اختیار کریں اور خاتون کو اپنا دفاع کرنے دینا چاہیے۔ تاہم، اس بات کا فیصلہ بھی نہ ہو سکا۔
ادھر ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے واضح کیا ہے کہ اس کا پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان ہونے والے پس پردہ رابطوں سے کوئی تعلق نہیں۔ سینیئر صحافی انصار عباسی کے مطابق کچھ لوگوں کی جانب سے دیے جانے والے یا پھر سمجھے جانے والے اس تاثر کی واضح تردید کی گئی کہ گویا پس پردہ رابطے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے کسی اقدام کا نتیجہ ہیں یا پھر اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان کوئی رابطہ ہے۔ فوج کسی سیاسی جماعت سے بات نہیں کرے گی۔ یہ سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بات کریں۔