احتجاج ہر صورت ہوگا، بشریٰ بی بی نگرانی کرینگی، پشاور میں پی ٹی آئی قیادت کا بڑا فیصلہ

ہفتہ 23 نومبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق خاتون اوّل اور عمران خان کی اہلیہ کے سعودی عرب کے حوالے بیان اور اسلام آباد کو سیل کرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے طویل مشاورت کے بعد 24 نومبر کو تمام روکاٹیں ہٹا کر اسلام آباد پہنچنے کا عزم کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بشریٰ بی بی کیخلاف ایف آئی آر کٹ گئی، پی ٹی آئی کا احتجاج منسوخ ہوسکتا ہے؟

وزیر اعلیٰ ہاؤس پشاور میں رات گئے مرکزی قیادت کا اجلاس وزیرْاعلیٰ علی امین گنڈا پور اور بیرسٹر گوہر کی صدارت میں ہوا۔ جس میں بشری بی بی کی بیان پر بھی تفصیلی بات ہوئی۔ اور اسلام آباد مارچ کی تیاریوں کو بھی حتمی شکل دی گئی۔ وزیرا علی علی امین گنڈاپور کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ہر صورت اسلام آباد مارچ ہو گا۔ احتجاج ہر صورت ہوگا، ڈی چوک پر دھرنا ہوگا، تمام رکاوٹیں پار کرکے منزل پر پہنچیں گے، اس بار واپسی نہیں ہوگی۔

اجلاس میں کون کون شریک تھے؟

ذرائع کے مطابق رات گئے وزیراعلیٰ ہاوس میں ہونے والا اجلاس غیر معمولی تھا، جو ہنگامی طور پر طلب کیا گیا تھا۔ اجلاس میں سابق صدر عارف علوی، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر، اسد قیصر، شیخ وقاص اکرم، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اور دیگر اہم رہنما بھی شریک تھے۔

اجلاس میں مارچ کے حوالے سے مشاورت کی گئی اور اجلاس کو حکومت کے ساتھ رابطوں کے حوالے سے بھی آگاہ کیا گیا۔ اجلاس میں بیرسٹر گوہر اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقاتوں کے بارے میں بھی بتایا گیا۔

وفاق سنجیدہ نہیں، مارچ ہر صورت ہو گا، اجلاس میں فیصلہ

ذرائع کے مطابق اجلاس میں طویل مشاورت کی گئی اور حتمی طور پر ہر صورت اسلام آباد مارچ کرنے اور ڈی چوک پہنچنے کا عزم کیا گیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ تمام قائدین قافلوں کو لیڈ کریں گے۔ اور روکاوٹیں ہٹا کر اسلام آباد جائیں گے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ وفاق سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہا۔

احتجاج نہیں ڈی چوک پر دھرنا ہو گا

وزیر اعلیٰ ہاؤس اجلاس میں بتایا گیا کہ ڈی چوک پہنچ کر صرف احتجاج کے بعد واپسی نہیں ہو گی بلکہ دھرنا ہو گا۔ اور دھرنا جاری رہے گا اور مارچ کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے کھڑی کی گئی تمام روکاٹیں ہٹانے کے لیے بھاری مشینری کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی احتجاج: پشاور، لاہور موٹروے سمیت تمام ٹرانسپورٹ اڈے بند کرنے کا حکم

ذرائع کے مطابق تمام بڑی مشینری آج صوابی پہنچا دی جائے گی۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ ریسکیو، سی این ڈیلیو اور دیگر محکموں کو بھاری مشینری صوابی پہنچانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

ورکرز کو ماسک، نمک اور قائدین کو وائرلیس سیٹ لانے کی ہدایت

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی قیادت نے مارچ کے لیے بھرپور انتظامات کی ہدایت کی ہے۔ تمام ورکرز کو پانی، نمک، شیلنگ سے بچنے کے لیے ماسک لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جبکہ موبائل سگنل بند ہونے کا خدشہ ہے اس کے لیے اہم قائدین کو وائرلیس سیٹ، تھورایا لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

بشری بی بی مارچ کو خود مانئٹر کریں گی

ذرائع کا بتانا ہے کہ بشریٰ بی بی کی مارچ میں شرکت کرنے کے حوالے سے کوئی مصدقہ معلومات نہیں ہیں۔ جبکہ پارٹی قیادت کے مطابق وہ مارچ میں شریک نہیں ہوں گی۔ تاہم وہ آخری وقت میں سرپرائز بھی دے سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی خواتین قیادت احتجاج کے لیے کتنی پُرجوش ہے؟

باخبرذرائع کے مطابق بشریٰ بی بی وزیر اعلیٰ ہاؤس سے مارچ کو خود ماینٹر کریں گی۔ جس کے لیے ریسکیو ہیڈ کوراٹر میں قائم ریسکیو کنٹرول روم کو پی ٹی آئی میڈیا سیل کے حوالے کیا گیا ہے۔ اور سوشل میڈیا کی ٹیم وہاں سے مارچ کو ماینٹر کرے گی اور بشریٰ بی بی کو رپورٹ کرے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

ویمنز ورلڈ کپ: پاکستان کے لیے جیتنا ناگزیر، جنوبی افریقہ نے 313 رنز کا ہدف دے دیا، اوورز صرف 40

باہمی اتحاد کے ذریعے ہی ملک کو بھنور سے نکالا جا سکتا ہے، وزیر داخلہ محسن نقوی

ٹی ایل پی سوشل میڈیا ٹیم کا رہنما گلگت سے گرفتار

سہیل آفریدی کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہ ملی تو کابینہ کی تشکیل کیسے ہوگی؟ بیرسٹر گوہر نے بتا دیا

پاکستان میں رواں برس پولیو کیسز کی تعداد 30 تک پہنچ گئی

ویڈیو

پی ایس ایل 2026 میں 2 نئی ٹیموں کی شمولیت کا امکان، کونسے شہر زیر غور؟

آنکھوں میں اندھیرا مگر خواب روشن: حسن ابدال کی اسرا نور کی کہانی

وطن واپسی کے 2 سال، کیا نواز شریف کی سیاسی زندگی اب جاتی عمرہ تک محدود ہوگئی ہے؟

کالم / تجزیہ

افغانوں کو نہیں، بُرے کو بُرا کہیں

ہم ’یونیورس 25‘ میں رہ رہے ہیں؟

پاک افغان امن معاہدہ کتنا دیرپا ہے؟