پاکستان میں دہشتگردی کی نئی لہر، وجوہات کیا ہیں؟

پیر 25 نومبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران دہشتگردی کے واقعات اور ان کے اثرات میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اگست میں بی ایل اے کے ہاتھوں موسٰی خیل میں پنجابی مسافروں کی شہادت ہو، کراچی میں چینی شہریوں یا تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے سیکیورٹی فورسز پر حملے ہوں، ایسے واقعات کی تعداد اور ان میں ہونے والی شہادتوں میں پہلے کی نسبت اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان ماضی کی طرح ایک بار پھر دہشتگردی کے شکار ایک ملک کا منظر پیش کررہا ہے۔

علیحدگی پسند تنظیم بی ایل اے ایک اور دہشتگرد تنظیم ٹی ٹی پی کے خطرات کا سامنا تو ہم کر ہی رہے تھے لیکن گزشتہ کئی ماہ سے پاراچنار میں فرقہ وارانہ دہشتگردی جاری تھی جو چند روز قبل اس قدر شدت اختیار کرگئی کے 40 سے زائد قیمیتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ یہ واقعہ پاکستان کے لیے ایک نیا سردرد بن چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے دہشتگردی کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟

بڑھتی ہوئی دہشتگردی کی کیا وجوہات ہیں؟

بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسحاق احمد خٹک ماہر افغان امور ہیں۔ افغانستان میں پاکستان کے قونصلر رہے ہیں اور حال ہی میں ان کی ایک کتاب ’دی لاسٹ وار‘ کے نام سے شائع ہوئی جو بنیادی طور پر افغانستان سے امریکی انخلا اور طالبان کی ایک بار پھر سے اقتدار میں واپسی سے متعلق ہے۔

وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسحاق احمد خٹک نے کہا کہ جیسے آج کل ہم افغان عبوری حکومت سے شکایات کرتے ہیں کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کو کنٹرول نہیں کرتی اور دہشتگرد پاکستان کے اندر حملوں کے لیے افغان سرزمین کا استعمال کرتے ہیں، بالکل ویسے ہی 2021 سے قبل افغان صدر حامد کرزئی اور امریکی فوج بھی ہم سے یہی شکایت کرتی تھی کہ پاکستان افغان حکومت اور ایساف فورسز پر طالبان کے حملے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کررہا۔

یہ بھی پڑھیں: کرم: مسلح افراد کی مسافر گاڑیوں پر فائرنگ، 38 افراد جاں بحق، متعدد زخمی

انہوں نے کہا طالبان مرسینریز یا کرائے کے فوجی ہیں اور ان کی معیشت کا دارومدار اسی جنگ پر ہے۔ ان میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جنہیں سوائے بندوق چلانے کے اور کوئی کام نہیں آتا۔ اب بین الاقوامی قوتیں جن کا اس علاقے اور اس دہشتگردی سے مفاد جڑا ہے وہ ممکنہ طور پر ان کو استعمال کرتی ہیں۔ امریکا جس کے عالمی عزائم ہیں اور بھارت جس کے علاقائی عزائم ہیں وہ ایسی قوت کو خطے کا امن تباہ کرنے اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے کیوں استعمال نہیں کریں گے۔

بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسحاق احمد خٹک نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان افغان طالبان کے ساتھ مل کر امریکیوں کے خلاف لڑتی رہی ہے، افغان طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مذہب اور ثقافت اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ٹی ٹی پی کی حمایت چھوڑ دیں یا ان کے خلاف آپریشن کریں، دوسرا ہم نے یعنی پاکستان نے اس مسئلے کو ہمیشہ فوجی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی ہے اور ضرب عضب کی وجہ سے یہ کوشش قدرے کامیاب بھی رہی جس کے نتیجے میں یہ طالبان ادھر ادھر بھاگ گئے یا سلیپر سیلز میں چلے گئے، یہ ہماری ایجنسیوں کی ناکامی ہے کہ ہم ان کا پتا نہ لگا سکے۔

یہ بھی پڑھیں: ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر حملہ: ’ایسے نشانہ بنایا گیا جیسے چن چن کر ہمیں مار رہے ہوں‘

انہوں نے کہا کہ جہاں اس معاملے میں وفاقی حکومت ذمہ دار ہے وہیں صوبائی حکومت کو بھی اس معاملے میں بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا، صوبائی حکومت کو بھی چاہیے کہ سیاست سے نکل کر عوام کی سیکیورٹی پر توجہ دے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے نیشنل ایکشن پلان میں یہ طے کیا تھا کہ دہشتگردی سے متاثرہ علاقوں میں ترقیاتی کام کیے جائیں گے جو نہیں کیے گئے، اس کے علاوہ ایف سی جوانوں کی بڑی تعداد کو وی آئی پیز کی سیکیورٹی پر معمور کردیا گیا ہے جو ہماری ترجیحات کی غمازی کرتا ہے، ایف سی کو پارا چنار میں ہونا چاہیے تھا جہاں دہشتگردی کا بہت بڑا واقعہ پیش آیا لیکن وہ احتجاج سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد میں بیٹھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امن قائم کرنے کی صورت صرف یہی ہے کہ حکومت کی پوری توجہ اس مسئلے کو ختم کرنے پر مبذول ہونی چاہیے۔

خیبرپختونخوا حکومت کی ترجیح قیدی 804، علی امین گنڈاپور کو آج کرم میں ہونا چاہیے تھا، فخر کاکا خیل

اس سال دہشتگردی میں اضافے کی وجہ کیا ہے، اس سوال کے جواب میں سینیئر صحافی اور افغان امور کے تجزیہ نگار فخر کاکا خیل نے وی نیوز کو بتایا کہ بنیادی وجہ 2021 میں تحریک طالبان پاکستان کی پاکستانی علاقوں میں ازسرنو آباد کاری ہے جو اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور اُس وقت کی فوجی قیادت کی بے وقوفی تھی جس کی جس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں، بعد میں آنے والی فوجی قیادت نے جب ان دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا تو اب وہ ردعمل میں حملے تیز کررہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت ہمیں اس معاملے سے بالکل لاتعلق نظر آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ضلع کرم میں اتنا بڑا واقعہ ہوگیا، وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو وہاں ہونا چاہیے تھا لیکن حالت یہ ہے کہ وزیراعلیٰ تو کیا کوئی وزیر تک وہاں نہیں گیا، ان کی ترجیح صرف اور صرف قیدی نمبر 804 ہے، ملک میں سیاسی انتشار کی وجہ سے بھی دہشتگردی بڑھی ہے۔ فخر کاکا خیل نے کہا کہ ملک بھر میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافے کی وجوہات مختلف ہیں، بلوچستان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشتگردی کی وجہ سی پیک ہے، عمران خان نے تو اس کو روک دیا تھا لیکن موجودہ حکومت نے جونہی سی پیک پر پیش رفت تیز کی تو دہشتگردی بھی بڑھ گئی۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں عمران خان کی رہائی تک موجود رہیں گے، علی امین گنڈاپور

فخر کاکا خیل کا کہنا تھا کہ سی پیک کی وجہ سے ماہ رنگ، پی ٹی ایم اور بی ایل اے سب متحرک ہوگئے ہیں، بنوں اور لکی مروت میں دہشتگردی کی وجہ حافظ گل بہادر گروپ ہے جس سے حکومت نے مذاکرات کیے تھے جبکہ کرم میں دہشتگردی کی وجہ بین الاقوامی ہے کیونکہ شام اور عراق میں لڑنے والے ’زینبیون گروپ‘ کے لیے لوگ یہیں سے جاتے تھے اور پھر وہاں داعش آگئی۔ فخر کاکا خیل نے کہا کہ 2021 میں جو ہم نے شیخی ماری تھی کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور جس طرح سے ہم نے طالبان کو ’اون‘ کیا تھا وہ دعویٰ اور اونرشپ اب ہمارے گلے پڑگئی ہے، پاکستان کے تمام علاقوں میں دہشتگردی کی وجوہات گو کہ مختلف ہیں لیکن اگر کوئی مشترک شے ہے تو وہ افغانستان ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کو لے کر ہمیں شیخی بگھارنے کی ضرورت نہیں تھی، دوسری اہم بات یہ ہے کہ وفاق نے خیبرپختونخوا کو بالکل آؤٹ سورس کردیا ہے، پاکستان تحریک انصاف اور وفاقی وزیر دفاع کے بیانات اس کا ثبوت ہیں جو کہ ایک افسوسناک صورتحال ہے، ماضی میں جب فوجی آپریشن کامیاب ہوئے تو اس کی وجہ یہی تھی کہ سیاسی قیادت نے ان آپریشنز کی اونرشپ لی تھی، جیسا کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی سوات آپریشن میں فوج کے ساتھ کھڑی تھی لیکن اس بار فوجی آپریشن کی کوئی سیاسی اونر شپ نہیں ہے۔

دہشتگردی ختم کرنے کے لیے سیاسی بے چینی ختم کرنے کی ضرورت ہے، نجم الثاقب

پاکستان کے سابق سفیر اور جنوبی ایشیا امور کے ماہر ایمبیسیڈر نجم الثاقب نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے نہ صرف سیاسی بے چینی کا خاتمہ ضروری ہے بلکہ عوام اور حکومت کے درمیان حائل رکاوٹوں کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے، فی الوقت ہماری سیاسی حکومت عوام سے براہ راست رابطہ نہیں کر پارہی اور جو پیغام عوام تک پہنچنا چاہیے وہ نہیں پہنچ پا رہا، حال ہی میں آرمی چیف نے کہا کہ قوم متحد ہو کر دہشتگردی کا مقابلہ کرسکتی ہے، یہ بہت اہم بات ہے لیکن اس بات کو مؤثر طریقے سے عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی احتجاج: فتنہ الخوارج کا بڑے شہروں میں دہشتگردی کا خطرہ، نیکٹا کی وارننگ

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کی روک تھام کے لیے حکومت کو طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور اس میں وفاق کے علاوہ صوبائی حکومتوں کا کردار بھی اہم ہے، خیبرپختونخوا دہشتگردی سے متاثرہ صوبہ ہے، وہاں کی حکومت کو صوبائی کے بجائے قومی سطح پر سوچنا چاہیے، خیبرپختونخوا حکومت جس طرح احتجاج کرنے جارہی ہے، اس طرح دہشتگردی کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہوگا، جب تک آپ دہشتگردی کو نمبر ون مسئلے کے طور پر نہیں لیں گے اور وفاق اور چاروں صوبے مل کر کام نہیں کریں گے، تب تک  یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp