رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جب ہر کوئی نیکی اور دوسروں کی مدد کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہے مگر اس ماہ مبارک میں بھی کوئی خواجہ سراؤں کو ان افراد میں شامل ہی نہیں کرتا جو مدد کے مستحق ہوں۔ مگر جیسے ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ویسے ہی سماج میں سارے لوگوں کا رویہ بھی یکساں نہیں ہے۔
وی نیوز نے ایک ایسی فیملی سے بات کی ہے جو ہر سال رمضان میں خواجہ سراؤں کے لیے خاص طور پر افطار کا اہتمام اور ان میں راشن تقسیم کرتی ہے۔
محمد امون پاشا اور ان کی اہلیہ فجر پاشا تقریباً گزشتہ 5 برس سے اس سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ ہر رمضان میں خصوصی طور پر خواجہ سراؤں کو اپنی رہائش گاہ پر افطاری کرواتے ہیں۔
ڈرائنگ روم میں افطار کا اہتمام
محمد امون پاشا اور ان کی اہلیہ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس سلسلے کو چلانے کا خیال انہیں آج سے تقریباً 6 سال قبل آیا تھا، کیونکہ انہوں نے کبھی خواجہ سرا کمیونٹی کو کہیں عزت سے کھاتے نہیں دیکھا تھا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ لوگ ان کی مدد تو ضرور کردیتے ہیں مگر ساتھ ہی ان کو دھتکار بھی دیتے ہیں۔ تو اس صورتحال کو مد نظر رکھ کر ہم دونوں نے یہی طے کیا کہ ہم خواجہ سراؤں کو اپنے گھر پر اپنے ڈرائنگ روم میں اتنی ہی عزت کے ساتھ جتنی کسی بھی گھر آئے مہمان کو دی جاتی ہے افطار کروائیں گے اور ان کو کمتر سمجھے بنا ان میں راشن تقسیم کریں گے‘۔
’پچاس سے زیادہ مہمان خواجہ سرا‘
محمد امون پاشا ایک سوشل ایکٹیوسٹ ہیں اور ’ہم پاکستان‘ کے نام سے ایک سوشیو پولیٹیکل موومنٹ چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب ہم نے افطار کروانا شروع کیا تو اس وقت ہمارے ہاں تقریباً بیس سے پچیس خواجہ سرا آتے تھے پچھلے برس ان کی تعداد تقریباً 34 تھی اور اس بار پچاس سے زیادہ ہے‘۔
ایک سوال کے جواب میں محمد امون پاشا کا کہنا تھا کہ ’ ان کی خواہش ہے کہ وہ خواجہ سراؤں کی تعداد کو مزید بڑھائیں اور جتنے زیادہ لوگوں تک راشن کو پہنچا سکیں پہنچائیں اور ان کے ساتھ مل کر افطار کریں‘۔
’صرف راشن تقسیم کر کے جان نہ چھڑائیں‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہمارا مقصد اور پیغام یہی ہے کہ ہماری طرح اور لوگ بھی اپنے طور پر خواجہ سرا برادری کی جتنی مدد کرسکتے ہیں تو ضرور کریں، بجائے ان میں راشن تقسیم کر کے ان سے جان چھڑوانے کے انہیں اپنے گھر میں اپنے ڈرائنگ رومز میں ان کے ساتھ مل بیٹھ کر کھانا کھائیں ان کو ایک فیملی ہونے کا احساس دلائیں اور عزت کے ساتھ رخصت کریں‘۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’معاشی بحران میں سب کا خیال رکھا جاتا ہے مگر لوگ اس صنف کو بھول جاتے ہیں کیونکہ خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا وہ پسا ہوا اور کمزور طبقہ ہے جس کی کمزوریوں، پریشانیوں اور دکھوں کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا‘۔
محمد امون پاشا نے خواجہ سراؤں کے افطار و راشن پر اٹھنے والے اخراجات کے حوالے سے بتایا کہ’ہمارے ساتھ ہمارے کچھ قریبی دوست احباب بھی اپنی مرضی سے اس میں حصہ ڈالتے ہیں‘۔
’خواجہ سراؤں کا گھر آنا کوئی غلط بات نہیں‘
فجر رابعہ پاشا پاکستان آلائنس فار گرلز ایجوکیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ان کے لیے ہر سال یہ ایک نہایت اہم تقریب ہوتی ہے، کہتی ہیں کہ مقصد صرف یہی تھا کہ ہم لوگوں کو پیغام دے سکیں کہ یہ ایک قابلِ احترام طبقہ ہے اور ان کا گھروں میں آنا کوئی غلط بات نہیں ہے، لوگوں کا اس برادری کی جانب رویہ تبدیل ہونا بہت ضروری ہے تاکہ لوگوں ان کو قبول کریں۔ لوگ ہمارے اس ارادے کو بہت زیادہ سراہتے ہیں اور اس سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کے لوگوں میں ان کے متعلق قبولیت میں اضافہ ہوا ہے‘۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’ہر سال سارے اخراجات ہم خود کرتے تھے مگر اب بہت سے لوگوں نے ہمیں کہا کہ ہم اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں تو اس میں بہت سے لوگوں کا حصہ ہوتا ہے‘۔
افطاری کے اہتمام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فجر رابعہ پاشا کا کہنا تھا کہ ’افطار سب مل کر بناتے ہیں مجھ سمیت میرے ملزم ہوتے ہیں اور ہم مل جل کر تمام کام کرتے ہیں اور جو کھانا ہوتا ہے وہ دیگ بن کر آتی ہے‘۔
’ گھر والے ماحول کا احساس ہوتا ہے‘
چند خواجہ سراؤں نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ پچھلے کئی برسوں سے ہر سال یہاں افطار کے لیے آتے ہیں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں خصوصی طور پر دعوت افطار دی جاتی ہے اور پھر با عزت طریقے سے راشن تقسیم کیا جاتا ہے اور یہاں آکر بالکل گھر والے ماحول کا احساس ہوتا ہے جو کہ عموماً نصیب نہیں ہوتا‘۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی 45 سالہ خواجہ سرا ’شبانہ‘ سڑکوں پر خیرات مانگ کر اپنا گزارا کرتی ہیں۔ شبانہ کا کہنا تھا کہ ’پہلے وہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے شادی بیاہ کے فنکشنز کیا کرتی تھیں۔ مگر بڑھاپے کی وجہ سے اب ان کا وہ کام ختم ہوگیا ہے۔ جس کے باعث وہ بھیک مانگ کر گزر اوقات کرنے پر مجبور ہوں‘۔
شبانہ کے مطابق وہ گزشتہ تقریباً دس، بارہ برس سے امون پاشا کے گھر آرہی ہیں۔
’اتنی حیثیت نہیں ہے کہ ہم اپنے گھروں میں یوں اکٹھے ہو کر افطاری کرسکیں‘
شبانہ نے وی نیوز کو بتایا کہ ’انہیں بہت خوشی ہوتی ہے کہ سب خواجہ سرا یہاں اکھٹے ہوکر افطاری کرتے ہیں جب کہ ہم اپنے گھروں میں شاید یوں اکھٹے نہ ہو سکیں کیوں کہ ہماری اتنی حیثیت نہیں ہے۔ مگر یہ گھر ہماری ہر سال افطاری کرواتا ہے راشن دیتا ہے تو بہت خوشی ہوتی ہے‘۔
’یہاں آکر بہت خوشی ہوتی ہے‘
وی نیوز کے ایک سوال پر شبانہ کا کہنا تھا ’ہر سال کی طرح اس سال بھی سب کو انتظار تھا کہ کب انہیں مدعو کیا جائے گا۔ اس بار بھی جونہی تین سے چار روزے گزرے تو سب خواجہ سرا میرے گھر آنا شروع ہوگئے اور سب کا ایک ہی سوال تھا کہ کیا باجی کا دعوتِ افطار کے حوالے سے کوئی میسج آیا؟ اور جونہی باجی کا میسج آیا تو میں نے سب کو میسج فارورڈ کر دیا۔ سب اس قدر خوش تھے کہ اس کی کوئی انتہا نہیں۔ ہمیں یہاں آکر بہت خوشی ہوتی ہے‘۔
ایک اور خواجہ سرا نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں بہت اچھا لگتا ہے کہ ہر سال ایک دن سب مل کر افطار کرتے ہیں۔
’ہماری افطاری سگنلز پر بھیک مانگتے گزر جاتی ہے‘
خواجہ سرا ’لبنٰی‘ ایف سیون میں نیل کٹر، بچوں کی پونیوں اور کلپس کا اسٹال لگاتی ہیں، شبانہ ہی کی طرح بڑھاپے میں یہ شادی بیاہ کی تقریبات پر تو نہیں جا سکتیں، تاہم اپنی روزمرہ کی زندگی کا نظام چلانے کے لیے چھوٹی موٹی مختلف چیزوں کا ٹھیلا لگاتی ہیں۔
لبنیٰ نے ایک سوال پر بتایا کہ ’ان کی افطاریاں یوں اکھٹے بیٹھ کر نہیں ہوتیں ان کو تو علم بھی نہیں ہوتا کے ان کا دوسرا خواجہ سرا ساتھی افطار کے وقت کہاں ہوگا۔ ہماری افطاریاں سڑکوں پر سگنلز پر بھیک مانگتے گزر جاتی ہیں یا پھر کسی گلی محلے میں کسی گھر کی گھنٹی بجا کر ان سے کھانے کے لیے کچھ مانگ کر افطاری کر لیتے ہیں اور کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں کہ ہمیں دیکھتے ہی اپنے گھروں کے دروازے بند کر لیتے ہیں‘۔
لبنیٰ کہتی ہیں کہ ’ہمارے نصیب میں دسترخوان پر بیٹھ کر افطاری کرنا نہیں لکھا‘۔
’ چیئر مین اسلامی نظریاتی کونسل کی دعوتِ افطار میں شرکت کی‘
چیئر مین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز نے مہمان خصوصی کے طور پر اس افطار دعوت میں شرکت کی اور خواجہ سراؤں کے ساتھ بیٹھ کر افطاری کی اور ان میں راشن تقسیم کیا۔
’یہ بھی اللہ کی باقی مخلوق ہی کی طرح ہیں‘
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر قبلہ ایاز کا کہنا تھا کہ خواجہ سرا کمیونٹی کو ہمارے معاشرے میں متعدد مشکلات در پیش ہیں اور عام طور پر معاشرتی حوالے سے لوگ ان کو اپنے قریب نہیں لاتے۔ یہ بھی اللہ کی باقی مخلوق کی طرح ہیں۔ اللہ نے ان کو ایسا پیدا کیا ہے۔ اگر ان کو اپنے سے کمتر یا حقیر سمجھیں یا پھر ان کی اہانت کریں تو گویا ہم نے خالق کی اہانت کی۔ تو یہ ایک انقلابی قدم ہے کہ اس برادری کو معاشرے میں باعزت مقام دیا جا رہا ہے اور ان کی مدد کی جا رہی ہے‘۔
’خواجہ سراؤں کی حواس کے مطابق ان کی صنف کا اندراج کیا جائے‘
ایک سوال پر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ ’خواجہ سراؤں کے بہت سے مسائل ہیں ان میں قانونی،معاشی اور معاشرتی مسائل بھی ہیں اور شریعت کے حوالے سے بھی مسائل ہیں۔ ہمارے پاس ہمیشہ ان کے حج، عمرہ اور زکات کے حوالے سے کافی سوالات آتے تھے۔ ان کے تمام مسائل کو اسلامی نظریاتی کونسل نے بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ حج پر خواجہ سرا جا سکتے ہیں مگر اس سے پہلے یہ جانا جائے کہ ان کے اندر کون سے حواس زیادہ پائے جاتے ہے اور پھر اس کے بعد ان پر اسی کے مطابق احکامات مرتب کیے جائیں۔
’ خواجہ سراؤں کے حوالے سے نادرا کو تجویز‘
یہ تمام مسائل ہم حل کر چکے ہیں۔ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے حوالے سے ہم نے نادرا کو تجاویز پیش کی ہوئی ہیں۔ ان تجاویز میں یہ ہے کہ جن خواجہ سراؤں میں مردانہ خصوصیات زیادہ ہوں ان پر مرد کا حکم نافذ کیا جائے اور وہی احکامات ہوں جو مردوں کے لیے ہیں،میراث اور باقی تمام شرعی معاملات کے حوالے سے بھی یہی حکم ہے۔













