پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے بنائے گئے 8 رکنی بینچ میں وہ 6 ججز بھی شامل ہیں جنہوں نے 4 اپریل کو سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے ازخود نوٹس مقدمات کی سماعت پر حکم امتناع والے مقدمے کو ہی ختم کر دیا تھا۔
بینچ کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کر رہے ہیں جبکہ سنیارٹی میں 13 ویں نمبر پر موجود جسٹس شاہد وحید بھی اس 8 رکنی بینچ کا حصہ ہوں گے۔
سپریم کورٹ کے ججوں کے بارے اس وقت عمومی تاثر یہ ہے کہ ججز کے دو گروپس کے درمیان بعض معاملات کو لے کر بہت شدید نوعیت کے اختلافات ہیں۔ گزشتہ کچھ روز میں سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے جاری کئے گئے فیصلے اس امر کے غماز ہیں کہ سپریم کورٹ کے ججز کے مابین تقسیم بہت واضح ہے۔
آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے بعد سے جسے سپریم کورٹ ہی کے بعض ججوں نے آئین کی ازسرنو تحریر کے مترادف قرار دیا، سے بظاہر شروع ہونے والا تنازعہ مزید گہرا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 8 رکنی بینچ کے 4 اراکین کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر درخواستیں دائر کی گئی ہیں جن پر ابھی تک کوئی سماعت نہیں ہوئی۔
جن ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواستیں دائر کی گئی ہیں ان میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی شامل ہیں جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف گزشتہ حکومت کی جانب سے دائر کئے گئے کیوریٹیو ریویو کی ان چیمبر سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔
یہاں یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ 8 رکنی بینچ کی تشکیل کیسے عمل میں آئی اور کن ججوں کو اس انتہائی اہم بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔
سنیارٹی لسٹ میں سب سے اوپر موجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، سنیارٹی لسٹ میں نمبر دو پر موجود جسٹس سردار طارق، چوتھے نمبر پر موجود جسٹس منصور علی شاہ، چھٹے نمبر پر موجود جسٹس یحیٰی آفریدی، ساتویں نمبر پر موجود جسٹس امین الدیں خان، نویں نمبر پر موجود جسٹس جمال مندوخیل اور 14 ویں نمبر پر موجود جسٹس اطہر من اللہ کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔
سنیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پرموجود جسٹس اعجاز الاحسن، ُپانچویں نمبر پر موجود جسٹس منیب اختر، آٹھویں پر جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، دسویں نمبر پر موجود جسٹس محمد علی مظہر، گیارہویں پر جسٹس عائشہ ملک، بارہویں نمبر پر سید حسن اظہر رضوی اور 13 ویں نمبر پر موجود جسٹس شاہد وحید کو بینچ میں شامل کیا گیا ہے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 8 رکنی بینچ میں شامل جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس سید حسن اظہر رضوی کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کے وقت وکلاء کمیونٹی کی طرف سے بہت مزاحمت کی گئی اور کہا گیا کہ سندھ ہائی کورٹ میں چوتھے اور پانچویں نمبر پر جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور محمد علی مظہر کو سپریم کورٹ کا جج نامزد کر کے سنیارٹی کے قانون اور قواعد کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
ان کی تعیناتی پر وکلاء تنظیموں نے احتجاج کیا تھا اور پاکستان بار کونسل نے ان کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی تھی جبکہ جسٹس شاہد وحید کی بطور سپریم کورٹ جج تعیناتی پر سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اعتراض کیا تھا۔
بینچوں کی تشکیل کے معاملے پر گزشتہ کافی عرصے سے اعتراضات اٹھائے جا رہے تھے۔ اسی تناظر میں ہم خیال بینچ کی اصطلاح بھی منظر عام پر آئی اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے ججز ایک خاص سیاسی جماعت کے حق میں اور بعض دوسری سیاسی جماعتوں کے خلاف فیصلے دیتے ہیں۔
ون مین شو کی باتیں سامنے آنے پر پارلیمنٹ نے قانون سازی کر کے بینچوں کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کی بجائے سپریم کورٹ کے 3 سینیئر ججز کے سپرد کر دیا اور ازخود نوٹس اختیارات بھی اسی 3 رکنی کمیٹی کو سونپ دئیے گئے۔
پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کے خلاف درخواستیں 2 سینیئر صحافیوں سمیع ابراہیم اور چوہدری غلام حسین نے خواجہ طارق رحیم اور اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے ذریعے دائر کر رکھی ہیں۔