جماعت اسلامی کی جانب سے پانامہ اسکینڈل پر نیب سے رجوع کرنے کی حامی بھرے جانے پر سپریم کورٹ نے پانامہ اسکینڈل معاملہ پر جماعت اسلامی کی درخواست نمٹا دی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی آئینی بینچ نے جماعت اسلامی کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی، جس میں پانامہ پیپرز اسکینڈل میں منظر عام پر آنیوالی آف شور کمپنیوں کے پاکستانی شخصیات سے روابط کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:پانامہ پیپرز کیس اور جے آئی ٹی کی حقیقت کیا تھی؟ حسین نواز نے خاموشی توڑدی
جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ پانامہ میں مخصوص کیس میں جے آئی ٹی بنائی گئی، علم نہیں پانامہ اسکینڈل کے باقی مقدمات کدھر گئے، جماعت اسلامی کے وکیل بولے؛ یہی ہمارا موقف ہے باقی کیسز کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ نیب کسی معلومات پر بھی ایکشن لے سکتا ہے، جماعت اسلامی کی دائر کردہ درخواست نیب کے لیے انفارمیشن ہے،
مزید پڑھیں: پانامہ اسکینڈل میں آنے والے 436 افراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، سراج الحق
ڈپٹی پروسیکیوٹر نیب نے بتایا کہ نیب کو اس سلسلے میں کوئی درخواست نہیں دی گئی، جسٹس مسرت ہلالی بولیں؛ نیب کا اختیار ترامیم کے بعد کم ہوگیا ہے، نیب نئی ترامیم کے مطابق ہی معاملہ کو دیکھ سکتا ہے۔
وکیل جماعت اسلامی نے موقف اختیار کیا کہ نیب جماعت اسلامی کی درخواست پر پانامہ اسکینڈل کی تحقیقات کرے، کیونکہ پانامہ کیس پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کی مثال موجود ہے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: پانامہ جے آئی ٹی رپورٹ والیوم 10 سے متعلق درخواست سماعت کے لیے مقرر
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کس کیس میں کیا ہوا عدالت کا مطمع نظر نہیں ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی پانامہ اسکینڈل کس قانون کے تحت بنائی گئی تھی، کیا نیب قانون میں جے آئی ٹی کی گنجائش ہے۔
وکیل جماعت اسلامی نے بتایا کہ پانامہ اسکینڈل میں جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی تھی، جماعت اسلامی کو پانامہ اسکینڈل کے ضمن میں درکار تحقیقات کے لیے نیب سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے جسٹس جمال خان مندوخیل بولے؛ نیب سے داد رسی نہ ہوتو سپریم کورٹ کے بجائے ہائیکورٹ سے رجوع کریں۔