گزشتہ دنوں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اسلام آباد کی جانب سے بلیو ایریا میں واقع تہذیب بیکری کو اس لیے سیل کر دیا گیا کہ اس کے چھ ملازمین ہیپاٹائٹس میں مبتلا تھے، جس کے بعد اب یہ سوال زیرِ گردش ہے کہ ’ہیپاٹائٹس میں مبتلا افراد خوراک فراہم کرنے والے اداروں، بیکریوں اور ریسٹورنٹس میں ملازمت کرسکتے ہیں یا نہیں؟‘
نیز یہ کہ ’اگر کسی شخص کی بیوی ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہے تو کیا وہ اپنے شوہر اور بچوں کو کھانا بنا کر دے سکتی ہے یا اس کی بھی ممانعت ہے؟‘
پانچ طرح کا ہیپاٹائٹس
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے معروف لیور ٹرانسپلانٹ سرجن اور پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ لاہور کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر فیصل سعود ڈار کا کہنا تھا کہ ’ہیپاٹائٹس بنیادی طور پر پانچ طرح کا ہوتا ہے، جنہیں ہیپاٹائٹس A, B, C, D اور E کہا جاتا ہے‘۔
ہیپاٹائٹس جو خود ہی ٹھیک ہوجاتا ہے
ان کا کہنا تھا کہ ’ہیپاٹائٹس اے گندے پانی سے پھیلنے والا مرض ہے اور اس مرض میں مبتلا فرد کو بخار، جسم میں درد، پیٹ میں تکلیف اور پیلی رنگت کی شکایت ہوتی ہے۔ ہیپاٹائٹس اے کا کوئی علاج نہیں اور ایسا شخص صاف پانی اور بہتر خوراک سے دو سے چار ہفتوں میں خود بخود ٹھیک ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر فیصل کے مطابق ’اسی طریقے سے ہیپاٹائٹس ای بھی گندے پانی اور آلودہ خوراک سے پھیلنے والا مرض ہے اور اس مرض میں مبتلا افراد بھی چند ہفتوں میں خود ہی صحت یاب ہو جاتے ہیں اور انھیں کسی طرح کی دوا لینے کی ضرورت نہیں پڑتی‘۔
اصل مسئلہ یپاٹائٹس بی اور سی ہیں
ان کا کہنا تھا کہ ’جس شخص کو زندگی میں ایک دفعہ ہیپاٹائٹس اے اور ہیپاٹائٹس سی ہو جائے انہیں یہ بیماریاں پوری زندگی دوبارہ لاحق نہیں ہوتیں کیونکہ ان کے جسم میں اس مرض کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا ہوجاتی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کا اصل مسئلہ ہیپاٹائٹس بی اور سی ہیں اور ان امراض میں مبتلا افراد کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہے‘۔
ہیپاٹائٹس بی اور سی کا شکار لاکھوں خواتین
انہوں نے بتایا کہ ’ہیپاٹائٹس بی اور سی صرف اور صرف انتقال خون اور جنسی رطوبتوں سے پھیلتے ہیں اور ان امراض میں مبتلا اشخاص کے ہاتھوں پکے ہوئے کھانے اور ان سے میل جول سے یہ امراض دوسرے افراد میں منتقل نہیں ہوتے‘۔
ڈاکٹر فیصل سعود ڈار کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں ایسی ہزاروں بلکہ لاکھوں خواتین ہیں جو کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مرض میں مبتلا ہیں اور وہ روزانہ اپنے شوہر اور بچوں کو نہ صرف کھانا پکا کر دیتی ہیں بلکہ برتن دھوتی ہیں، انہیں برتنوں میں کھانا کھاتی ہے لیکن ان سے یہ مرض ان کے بچوں کو منتقل نہیں ہوتا‘۔
ڈھائی فیصد آبادی ہیپاٹائٹس بی میں مبتلا ہے
ڈاکٹر فیصل ڈار نے بتایا کہ ’ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی تقریباً پانچ فیصد آبادی ہیپاٹائٹس سی اور تقریباً ڈھائی فیصد آبادی ہیپاٹائٹس بی میں مبتلا ہے‘۔
ہیپاٹائٹس بی اور سی کا علاج پاکستان میں نہایت ارزاں ہے
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہیپاٹائٹس بی اور سی میں مبتلا افراد نہ صرف ریسٹورنٹس بلکہ بیکریوں اور ہوٹلوں میں ملازمت کر سکتے ہیں، ہیپاٹائٹس بی اور سی کا علاج پاکستان میں نہایت ارزاں ہے، اور علاج کروا کر متاثرہ اشخاص ان امراض سے محفوظ ہو سکتے ہیں، لیکن اگر علاج نہ کروایا جائے تو چند سالوں میں متاثرہ شخص کا جگر ناکارہ ہونے لگتا ہے جس کا علاج صرف اور صرف جگر کی پیوند کاری ہے‘۔
ہیپٹاٹائٹس گندے پانی سے پھیلنے والی بیماریاں
اس ضمن میں پاکستان کے ایک اور معروف ماہر امراض پیٹ وجگر پروفیسر سعد خالد نیاز کا کہنا تھا کہ ’ہیپاٹائٹس اے اور ای گندے پانی سے پھیلنے والی بیماریاں ہیں اور ان بیماریوں میں مبتلا افراد جب تک ٹھیک نہیں ہو جاتے انہیں کھانے پینے کی جگہوں پر جانے سے گریز کرنا چاہیے‘۔
تاہم ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ ’ہیپاٹائٹس اے اور ای میں مبتلا افراد کچھ دنوں میں خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد انہیں یہ بیماریاں دوبارہ لاحق نہیں ہوتی اور وہ اپنی تمام زندگی بغیر کسی دوسرے فرد کو متاثر کیے گزار سکتے ہیں‘۔
ہیپاٹائٹس حاملہ خواتین کے لئے کافی نقصان دہ ہو سکتا ہے
ایک اور معروف گیسٹرواینٹرولوجسٹ اور پاکستان جی آئی اینڈ لیور ڈیزیز سوسائٹی کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر شاہد احمد کا کہنا تھا کہ ’ہیپاٹائٹس ای جو کہ گندے پانی سے پھیلتا ہے وہ خاص طور پر حاملہ خواتین کے لئے کافی نقصان دہ ہو سکتا ہے، اور ہیپاٹائٹس ای میں مبتلا تقریباً 30 فیصد خواتین جگر ناکارہ ہونے کے سبب موت کے منہ میں جا سکتی ہیں‘۔
ہیپاٹائٹس کھانے پینے سے منتقل نہیں ہوتا
ان کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک ہیپاٹائٹس ڈی کا تعلق ہے جسے ہیپاٹائٹس ڈیلٹا بھی کہا جاتا ہے یہ مرض صرف ان افراد کو ہوتا ہے جنہیں ہیپاٹائٹس بی کا مرض لاحق ہو اور ہیپاٹائٹس بی اور ڈی کا ملاپ مریض کے لیے کافی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود ان دونوں امراض میں مبتلا افراد کے ساتھ کھانے پینے یا اٹھنے بیٹھنے سے یہ مرض کسی صحت مند شخص کو منتقل نہیں ہوتا‘۔
ہیپاٹائٹس کی ویکسین پاکستان میں موجود ہے
ان تمام ماہرین کا کہنا تھا کہ ’سوائے ہیپاٹائٹس سی کے باقی تمام اقسام کے ہیپاٹائٹس سے بچنے کی ویکسین پاکستان میں موجود ہے جسے لگوا کر ان امراض سے محفوظ رہا جاسکتا ہے‘۔
سی ڈی اے ترجمان کی لاعملی
ہیپاٹائٹس کے شکار افراد کے پس منظر میں تہذیب بیکری کو سیل کیے جانے کے حوالے سے جب ہم نے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ترجمان کامران قریشی سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’وہ نہیں جانتے کہ بیکری کے ملازمین ہیپاٹائٹس کی کس قسم سے متاثر تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ جلد ہی اس سلسلے میں معلومات حاصل کرکے بتائیں گے تاہم تادمِ تحریر ان کا جواب موصول نہیں ہو سکا‘۔