29 جنوری 1955 کو لاہور میں پاکستان اور انڈیا کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان شروع ہونے والے ٹیسٹ کی حیثیت ایک میچ سے کہیں بڑھ کی تھی۔ باغ جناح میں لاہور جم خانہ کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلے گئے اس میچ کو دیکھنے کے لیے انڈیا سے بڑی تعداد میں لوگ سرحد پار کرکے آئے تھے جن کے مقامی تماشائیوں کے ساتھ میلاپ سے جوش و خروش دیدنی ہو گیا۔ یہاں کی ہلچل اپنی جگہ لیکن شہر بھر میں بھی اس میچ کی وجہ سے خاصی ہل چل مچی ہوئی تھی۔
انڈیا میں پاکستانی ہائی کمشنر راجہ غضنفر علی خان کی کوششوں سے ویزے کے با آسانی حصول نے لاہور میں میلے کا سماں پیدا کر دیا تھا۔ لوگ ریل سے بھی لاہور پہنچے اور واہگہ بارڈر سے سڑک کے راستے اپنی موٹر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے ذریعے بھی۔ ایسے دیوانے بھی نکلے جنہوں نے سائیکل کی سواری سے سفر یادگار بنایا۔
چند سال پہلے میں نے اردو کے معروف لکھاریوں کی تحریروں کی روشنی میں ان یادگار دنوں کا تذکرہ لکھا تھا جس کا مقصد اس میچ کی سیاسی، سماجی اور تاریخی اہمیت کو آشکار کرنا تھا۔
اس ٹیسٹ کے موقعے پر اہل لاہور نے انڈین ٹیم اور انڈین شہریوں کا رفیع الشان سواگت کیا۔ مہمانوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔ دیدہ و دل فرشِ راہ کیے۔ اس حُسنِ عمل سے تقسیم کے وقت کی تلخ یادیں معدوم اور نفرت کی دیوار ڈھیتی محسوس ہوئی۔
اس زمانے میں الفت نے جو رنگ بکھیرے اس کے بارے میں نامور مصنفین کے تاثرات جاننے کے بعد یہ چیٹک رہی کہ ہمارے ہاں کی اردو صحافت نے ان دنوں کی روداد کو کس طرح رپورٹ کیا تھا۔ میرا تجسس ایک دن مجھے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کی لائبریری میں لے گیا جہاں عبداللہ ملک کلیکشن میں معتبر اردو اخبار ‘امروز’ کی فائلیں محفوظ ہیں۔ ان کی ورق گردانی سے معلوم ہوا کہ ‘امروز’ نے ٹیسٹ میچ کے دوران کھیل کے میدان اور اس سے باہر کی عوامی سرگرمیوں کو بھرپور کوریج دی تھی اور انہیں اخبار کی ہیڈ لائن بنایا تھا۔
اس میچ اور عوامی رابطے کے بارے میں خبروں اور تبصروں کا امروز میں تانتا بندھا رہا۔ جن کا جائزہ لینے کے بعد میں نے چند خبریں اور تبصرے نمونے کے طور پر چنے ہیں۔
ایک خبر جس کا اس زمانے میں خاصا چرچا رہا وہ ایک نابینا تماشائی کے بارے میں تھی۔ معروف کمنٹیٹر اور قلم کار عمر قریشی نے ‘ ہوم ٹو پاکستان ‘میں ہمسایہ ملک کے تماشائیوں کی آمد سے جنم لینے والی محبت سے معمور فضا کے تذکرے میں نابینا سکھ کا حوالہ دیا ہے جس کی آنکھوں میں شہر میں قدم رکھتے ہی آنسو جھلملانے لگے تھے اور چھٹی حس جس کے لیے آنکھوں کا کام دے رہی تھی۔
‘ امروز’ نے اس منفرد تماشائی کے بارے میں خبر فرنٹ پیج کے اوپری حصے پر نمایاں کر کے شائع کی تھی:
وطن کی محبت
(امروز کے نامہ نگار سے)
لاہور ———- 29 جنوری
‘وطن کی محبت ایک بوڑھے سکھ کو لاہور لے آئی حالانکہ وہ نپٹ اندھا ہے۔ اس کے دو ساتھی سہارا دے کر آج تیسرے پہر شاہ عالمی کے علاقہ میں لے گئے اور ان جگہوں اور سڑکوں کی سیر کرائی جہاں وہ بچپن میں کھیلا، جوانی کے دن گزارے اور بڑھاپے میں اسے اس علاقے سے چلے جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ جوں ہی اس نے وہاں قدم رکھا شدت جذبات سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ اس علاقے کے باشندوں نے بھی بوڑھے سکھ کا پرجوش خیر مقدم کیا۔’
میدان کے اندر کا ایک ماجرا جس نے لیجنڈ کی صورت اختیار کی وہ مقصود احمد کا 99 کے سکور پر آؤٹ ہونا تھا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ یہ کرکٹ کی کتابوں میں ہی نہیں ادب کی کتابوں میں بھی نقل ہوا ہے۔
گراؤنڈ میں پاکستانی تماشائیوں کی ذہنی کیفیت کا نقشہ مستنصر حسین تارڑ کے جادو اثر قلم نے کھینچا ہے لیکن میدان سے دور ریڈیو کمنٹری پر مقصود احمد کے آؤٹ ہونے کے اعلان سے شائقینِ کرکٹ پر جو صدمے گزرے وہ الگ داستان غم ہے جس کا سب سے المناک پہلو نواب شاہ میں کرکٹ کے ایک شیدائی کا جان کی بازی ہارنا تھا۔
امروز کی فائلیں پھرولتے ہوئے اس انتقالِ پُر ملال کی خبر بھی نظر سے گزری۔ ستر برس بعد آپ بھی نظر بھر کر یہ روداد دیکھ لیں :
‘یہاں موصول ہونے والی اطلاع کے مطابق ایک چالیس سالہ کرکٹ کا شوقین ایک ہوٹل میں بیٹھا ریڈیو سے آنکھوں دیکھا حال سن رہا تھا اور ایک ایک رن کا حساب لگا رہا تھا لیکن جوں ہی کومنٹیٹر نے مقصود کے آؤٹ ہونے کا اعلان کیا تو مرحوم نے ایک چیخ ماری اور طویل سانس لیا اور جاں بحق ہو گیا۔ آخری وقت اس نے صرف ایک لمبی آہ کی تھی۔ ڈاکٹروں کا بیان ہے کہ اس کی موت حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث ہوئی۔(ا۔ پ۔ پ۔)
مقصود احمد کی طرف سے اہل خانہ کے نام تعزیتی تار بھیجنے کی خبر بھی امروز نے شائع کی تھی۔
اب کھیل کے میدان سے شہر کا رخ کرتے ہیں جہاں سینہ چاکانِ چمن کے آپس میں گھل مل جانے کے دو واقعات امروز نے نمایاں ترین خبر کے طور پر شائع کیے۔
امروز اخبار کے مطابق 11787 ہندوستانی شہریوں کو ویزہ ملا جن کے لاہور آنے سے شہر کی سڑکوں پر میلے کا سماں تھا۔
امروز کے سٹاف رپورٹر نے لکھا:
‘ایک ایسا قومی میلہ جو ہندوستانی اور پاکستانی باشندوں کا مشترکہ میلہ ہو جسے منانے میں مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کو یکساں خوشی محسوس ہوئی اور شہر میں ہر طرف مسلمان، ہندو اور سکھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ، دوستی اور رفاقت کے جذبے سے سرشار مسرت اور خوشیوں کی دنیا سمیٹے اپنی دھن میں مگن گھوم رہے تھے۔’
گوالمنڈی اور شہر کے اندرونی علاقوں میں ہندوستانی شہریوں کے داخلے سے پابندی اٹھنے پر لوگ شیر و شکر ہوگئے۔ مجمع رفتہ رفتہ کارواں بنتا گیا اور اس نے جلوس کی صورت اختیار کر لی جس کے لیے کسی نے انتظام کیا تھا نہ ہی اسے کوئی سرپرستی حاصل تھی۔
اسی دن ایک جلوس مال روڈ پر ان مسلم، ہندو اور سکھ تماشائیوں کا نکلا جنہوں نے پاکستان زندہ باد اور ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ جی پی او چوک پر جا کر ختم ہونے کے بعد اس جلوس نے جلسے کی صورت اختیار کرلی۔
امروز اخبار کے مطابق جس میں ‘ دونوں حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ دونوں ملکوں کے شہریوں کی آمدو رفت کی پابندیاں نرم کی جائیں۔ مقرروں نے اس امر پر زور دیا کہ دونوں ملکوں کی ترقی کے لیے خوشگوار تعلقات ضروری ہیں۔’
اخبار میں میچ کی رپورٹنگ ہو رہی تھی، شہر میں محبت کا جو زمزمہ بہہ رہا تھا اس کا بیان تھا۔ خبروں کے ساتھ ساتھ تبصروں اور کالموں میں بھی یہ موضوع جگہ پا رہا تھا اور تحسین کے ساتھ ساتھ نقد بھی ہو رہا تھا۔
مولانا محمد جعفرشاہ پھلواری نے اپنے مضمون ‘لاہور میں دو بلاؤں کا نزول (بسنت اور کرکٹ)’ میں انہیں بلائے گہانی قرار دیا گیا جس نے شہریوں کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور ان پر انہی کی دھن سوار تھی۔ بسنت سے زیادہ کرکٹ کی۔کرکٹ کی پتنگ بازی پر سبقت کا تذکرہ انتظار حسین کے افسانے ‘ گونڈوں کا جنگل ‘میں بھی ہے:
‘ساجد میاں دیکھ رہے ہو. آج کل کے لڑکے اس کھیل کے پیچھے کیسے دیوانے ہو رہے ہیں۔ اتنا تو ہم نے پتنگ کے پیچھے بھی لڑکوں کو دیوانہ ہوتے نہیں دیکھا تھا۔’
یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا بات مولانا محمد جعفر شاہ پھلواری کی ہورہی تھی تو ان کا زیادہ نزلہ کرکٹ پر گرا۔ کمنٹری کے دیوانوں کے احوال میں سامعین کی حرکات و سکنات کا بیان ہمیں سب سے دلچسپ لگا:
‘کبھی نعرے لگاتے ہیں۔کبھی پُرسکون ہیں۔ کبھی متفکر ہیں۔ کبھی خاموش کھڑے سوچ میں غرق ہیں۔ کبھی پاؤں پٹختے ہیں۔ کبھی ہاتھ ہلاتے ہیں۔ کبھی گردن کو جنبش دیتے ہیں گویا کسی مشاعرے میں غالب کی غزل سن کر بے سمجھے داد دے رہے ہیں۔ کبھی چ چ چ چ کرکے افسوس کا اظہار ہو رہا ہے۔ کبھی اوئی ہوئی۔ کبھی آئے ہائے۔ کبھی واہ وا۔اہاہا ۔کبھی وہ مارا۔ کبھی وہ گیا۔ کبھی تالیاں بج رہی ہیں۔ کبھی نعرے لگ رہے ہیں۔ کبھی جھوم رہے ہیں۔ بس یوں سمجھیے کہ قوالی میں حال قال ہو رہا ہے۔’
مولانا نے شگفتہ پیرائے میں میچ کے دوران شائقین کے احوال کا نقشہ بڑی خوبصورتی سے کھینچا ہے ۔
دلچسپ بات ہے کہ چند دن بعد امروز ہی میں مولانا محمد جعفر شاہ پھلواری کا مضمون ‘کرکٹ کی بلا کا ایک خوشگوار پہلو’ شائع ہوا جس میں انہوں نے پاک بھارت ٹیسٹ میچ کی وجہ سے دونوں ملکوں کے عوام میں باہمی محبت کے جذبے کو سراہا تھا۔
انہوں نے لکھا کہ ‘غرض دوستی، خلوص، محبت اور مہمان نوازی کی جو فضا ان دنوں لاہور میں دیکھنے میں آئی ہے ۔ وہ شاید صدیوں پہلے کی تاریخ میں بھی مشکل سے نظر آسکتی ہے اور یہ سب کچھ صدقہ ہے ایک میچ کا۔’
مضمون کے آخر میں انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ دوستانہ فضا عارضی ثابت نہیں ہو گی اور اس کے دور رس اثرات ہوں گے۔ ان کے خیال میں یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ پاکستان کے لوگ جنگ کے بجائے صلح و دوستی کے ذریعے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول’ اگر یہی دوستانہ فضا دونوں حکومتوں کے ذمہ دار لوگوں میں بھی قائم ہو گئی تو وہ تمام گتھیاں دوستانہ فضا ہی میں سلجھ جائیں گی جو اب تک دونوں حکومتوں کے لیے لاینحل مسائل بنی ہوئی ہیں۔’
امروز میں ‘حرف و حکایت ‘کے کالم میں عوام کی میچ میں دلچسپی موضوع بحث بنی۔ کرکٹ کے تعلق سے اشتہار چھپے ۔ایک مستقل سلسلے ‘امروز و فردا’ میں ایک شذرہ شائع کیا گیا جسے ‘اہل لاہور کا بلند کردار’ کا عنوان دیا گیا تھا۔
ایڈیٹر کی ڈاک میں بھی میچ پر بات ہوتی رہی۔ میچ ختم ہونے کے اگلے روز اخبار میں چار دنوں میں پندرہ ہزار ہندوستانی تماشائیوں کے لاہور آنے کی خبر شائع ہوئی۔ یہ چار روزہ ٹیسٹ میچ بے نتیجہ رہا اور آج کی طرح اس زمانے میں بھی پاکستانی فیلڈر ناقص فیلڈنگ کے ذریعے بولروں کی محنت پر پانی پھیرتے رہے۔
منفرد تماشائی
ممتاز صحافی حسین نقی برصغیر کی سیاست کے بڑے اہم واقعات کے چشم دیدہ گواہ ہیں۔ وہ اپنی ذات میں چلتی پھرتی تاریخ ہیں۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ٹیسٹ کرکٹ کے دو تاریخ ساز معرکے وہ جاگتی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ میری خوش قسمتی ہے کہ ان کا احوال نقی صاحب سے براہ راست سننے کا موقع ملا جسے میں اپنے سینے میں محفوظ رکھنے کے بجائے عیاں کر رہا ہوں۔
1952 میں پاکستان نے لکھنؤ میں اپنی تاریخ کا پہلا ٹیسٹ میچ جیتا تو حسین نقی وہیں موجود تھے۔ گراؤنڈ کے قریب دریا والی مسجد میں انہوں نے نماز کے بعد نذر محمد کی سنچری کے لیے دعا کی جو قبول ہوئی اور وہ پاکستان کی طرف سے پہلی ٹیسٹ سنچری بنانے والے بلے باز بن گئے۔
نقی صاحب نے بتایا کہ پاکستانی کھلاڑی لکھنؤ میں حضرت گنج اور امین آباد کے بازار میں گئے تو ان کے مداحوں نے انہیں گھیر لیا اور دکانداروں نے مہمانوں کو تحائف پیش کیے۔
حسین نقی نے تماشائی کے طور پر لکھنؤ ٹیسٹ ہی نہیں لاہور میں انڈیا پاکستان کا وہ ٹیسٹ میچ بھی دیکھا جس کے بارے میں آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہیں۔ اس وقت وہ ہجرت کے بعد کراچی منتقل ہو چکے تھے اور کرکٹ کے شوق میں اپنے کزن کے ساتھ لاہور میچ دیکھنے آئے اور وائی ایم سی اے میں ٹھہرے تھے۔
حسین نقی نے بتایا:
‘انارکلی بازار میں تو بہت جذباتی مناظر بھی دیکھے۔ لاہور کے شہریوں کے ساتھ ساتھ پنجاب کے دیگر شہروں سے آنے والے مہاجر مسلمان اور بھارتی پنجاب سے آنے والے بالخصوص سکھ ایک دوسرے سے بغل گیر ہو کر آنسو بہا رہے تھے اور دکاندار ان کو قیمتی اشیاء بھی تحفتاً دے رہے تھے ۔لوگ اپنے بچھڑے ہمسایوں اور دوستوں سے ملنے میں زیادہ وقت صرف کرتے تھے بلکہ بہت تو ایسے تھے جنہوں نے میچ کے ٹکٹ تو ضرور خریدے تھے لیکن اکثر تو ایک دن بھی میچ دیکھنے کے بجائے بازاروں میں پھرتے رہے یا دوستوں اور سابق ہمسایوں کے گھروں میں دعوتیں اڑاتے رہے۔’
حسین نقی نے کہا کہ آج کل ہندوستان اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان میچ کے دوران جن جنگی جذبات کا اظہار ہوتا ہے ان دونوں میچوں میں یہ بالکل دیکھنے میں نہیں آیا۔
نقی صاحب کے خیال میں عوام میں قربت دیکھ کر وہ قوتیں چوکنا اور پریشان ہو گئیں جن کا مفاد نفرت کے بیوپار میں تھا لہٰذا انہوں نے پھر دوبارہ عوام کو اس طرح آپس میں ملنے اور یکجا ہونے کا موقع نہیں دیا۔ ان کی دانست میں یہ فضا برقرار رکھی جاتی تو آئیندہ کی جنگوں سے بچا سکتا تھا۔