تحریک انصاف کا اسلام آباد میں احتجاج نہ صرف ختم ہوچکا بلکہ پچھلے دو دنوں کے دوران ابتدائی جذباتی کیفیت میں کسی قدر کمی آئی اور اس احتجاج کی ناکامی کا تجزیہ کیا جانے لگا ہے۔ تحریک انصا ف کی صفوں میں اس حوالے سے بات چیت ہونے لگی ہے۔ یہ مثبت امر ہے۔ ہم اس کالم میں تحریک انصاف کی ان غلطیوں کا جائزہ لیں گے جن کا انہیں نقصان پہنچا۔
احتجاج کی غلط ٹائمنگ
کوئی مانے یا نہ مانے یہ اسلام آباد پر چڑھائی کرنے اور دھرنا دینے کے حوالے سے موزوں وقت اور موسم نہیں تھا۔ عمران خان نے 10 سال پہلے احتجاجی مارچ اور دھرنا دیا تھا، تب اگست کا وسط تھا، گرم، حبس آلود موسم جس میں اگر بارش ہوجائے تو ہر ایک کو بھیگنا اچھا لگتا ہے۔ وہ دھرنا کئی ماہ تک چلا، حتیٰ کہ سردیاں آگئیں اور شرکا کی تعداد چند سو تک رہ گئی تھی۔ پشاور اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے سانحہ نے تحریک انصاف کو اپنا دھرنا ختم کرنے کا موقعہ فراہم کیا، ورنہ شدید ٹھنڈ میں دھرنا کسی اعلان کے بغیر ہی بہت برے طریقے سے ختم ہوجاتا۔
مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کے دور حکومت میں اپنا آزادی مارچ اور دھرنا دیا تب بھی موسم خنک ہو چلا تھا، اکتوبر کا اینڈ تھا اور بارش بھی ہوئی جس سے شرکا کو خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم تب دھرنے کو حکومت نے نہیں روکا تھا اور انہیں خیمے وغیرہ لگانے کا پورا موقع فراہم کیا تھا، اسی وجہ سے بارش اور ٹھنڈ کا مقابلہ کرنا بھی ان کے لیے آسان ہوگیا۔ مولانا نے اپنا دھرنا چند دنوں بعد ختم کر دیا تھا۔ وہ اگر تاخیر کرتے تو پھنس جاتے۔
مزید پڑھیں: کب جان سے جائیں گی یہ جذباتی وابستگیاں
تحریک انصاف کا یہ احتجاجی مارچ اور ممکنہ دھرنے کا وقت اور موسم موزوں نہیں تھا۔ 26 نومبر اور اس کے بعد اسلام آباد کا موسم ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ بارش ہوجائے تو ٹمپریچر مزید کئی درجے نیچے گرجاتا ہے۔یاد رہے کہ عمران خان کے 10 سال پرانے دھرنے میں حکومتی کریک ڈاؤن کا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ مقتدر حلقے نواز شریف حکومت کے خلاف تھے۔ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کو بھی کسی آپریشن کا خدشہ نہیں تھا۔ انہیں صرف موسم کا مقابلہ کرنا اور کئی دنوں تک اپنی انرجی محفوظ رکھنا تھی۔
تحریک انصاف کے احتجاج اور دھرنے کو عدالت نے منع کردیا تھا، حکومت سخت بیانات دے رہی تھی کہ زبردستی دھرنا ختم کردیا جائے گا۔ ایسے میں تو ٹھنڈے موسم کا مقابلہ کرنا مزید مشکل ہوجاتا ہے کہ بے سروسامانی میں کریک ڈاؤن سے بھی بچیں اور سونے کا موقعہ بھی نہ ملے۔
یہ بات بھی ذہن میں رکھنا چاہیے تھی کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ اب عدلیہ چاہے بھی توازخود نوٹس نہیں لے سکتی۔ عدالت سے کوئی بڑا ریلیف تحریک انصاف کو ملنا اب اتنا آسان نہیں رہا۔ تحریک انصاف نے الیکشن کے بعد الائنس بنانے کی کسی حد تک کوشش کی اور ایک طرف محمود اچکزئی صاحب سے قربت پیدا کی تو دوسری طرف مولانا فضل الرحمن سے فاصلہ کم کیا۔ اسلام آباد کے اس احتجاج میں مگر تحریک انصاف مکمل طور سے تنہا اور اکیلی تھی۔
پنجاب کی عدم شمولیت
تحریک انصاف کی قیادت کو اس پر توجہ دینا چاہیے تھی کہ پنجاب سے انصافین کارکن اور حامی ان کے احتجاجی پروگرام میں اس طرح شریک نہیں ہو رہے جیسا کہ ماضی میں مثالیں ملتی ہیں، یہ بڑی اہم بات ہے۔ تحریک انصاف کا پنجاب میں اچھا، بڑا ووٹ بینک ہے، وہ صوبے کی بڑی جماعت ہے اور صوبائی اسمبلی میں بھی اس کے اراکین کی خاصی تعداد ہے۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ کی فتح: 5 پوائنٹس جو پاکستانی سیاستدان بھی سیکھ سکتے ہیں
اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ پچھلے چند ماہ میں پنجاب کے عوام تحریک انصاف کے احتجاج میں بھرپور انداز سے شریک نہیں ہوئے۔ حالیہ احتجاج یا پچھلے مہینے شنگھائی تعاون کانفرنس کے موقعہ پر تو چلو یہ کہا جا سکتا ہے کہ انتظامیہ نے سڑکیں، موٹر ویز، جی ٹی روڈ بند کر دیا اور لوگ شامل نہیں ہو پائے۔ سوال مگر یہ ہے کہ لاہور میں ان لوگوں کو باہر نکلنے سے کون روک سکتا ہے؟ لاہور سوا کروڑ سے زیادہ آبادی کا شہر ہے، اگر وہاں پر بیس پچیس ہزار لوگ بھی باہر نہ نکلیں تو یہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
24 نومبر سے شروع ہونے والے احتجاج سے قبل تحریک انصاف کو پنجاب میں اپنی پارٹی تنظیم کو متحرک کرنے کی ضرورت تھی۔ پنجاب کے صدر حماد اظہر ڈیڈھ سال سے روپوش ہیں۔ بعض رہنما اسیر ہیں، گراس روٹ لیول پر پارٹی کارکنوں کو ووٹر سے کوئی رابطہ نہیں۔ بشریٰ بی بی کو ضمانت کی رہائی کے بعد لاہور سمیت چند دیگر شہروں کا دورہ کرکے ہلکی پھلکی تنظیمی سرگرمیوں میں حصہ لینا اور کارکنوں سے رابطہ کرنا چاہیے تھا۔
26 نومبر کے احتجاج میں پنجاب بڑی حد تک لاتعلق اور بے نیاز رہا۔ تحریک انصاف کے اندر بعض جذباتی نوجوان پنجاب اور پنجابیوں کو طعنے دے رہے ہیں، یہ بیکار بات ہے۔ اسی پنجاب نے 8 فروری کو تحریک انصاف کے حق میں بڑا مینڈیٹ دیا۔ اب اگر لوگ احتجاج کے لیے باہر نہیں نکل رہے تو ان سے رابطہ کرنے اور ان کی سوچ جاننے، سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کو بہرحال حالیہ تجربے کے بعد یہ اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ملک میں تبدیلی صرف کے پی سے نہیں لائی جا سکتی۔ پنجاب اور سندھ سے کم از کم کراچی کو شامل کرنا ضروری ہے۔
ناکافی اور کمزور پلان
اس میں تو اب کوئی دوسری بات رہی نہیں کہ تحریک انصاف کا پلان ناقص اور کمزور تھا۔ پلان میں یہ تھا ہی نہیں کہ ڈی چوک جا کر کیا کرنا ہے؟ وہاں کئی ہزار لوگ تو تھے ہی،کیا پلان تھا کہ اسلام آباد کی یخ بستہ رات یہ تھکے ہارے لوگ کہاں گزاریں گے؟ جو 2 دن سے جاگ رہے ہیں، مسلسل آنسو گیس کے شیل سہہ کر نڈھال ہوئے پڑے، ان کے آرام کا بھی کسی نے سوچا تھا؟
مزید پڑھیں: بشریٰ بی بی نے عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے حوالے سے بیان کیوں دیا؟
اگر انتظامیہ نے کریک ڈاؤن کردیا تو کیا کیا جائے گا؟ اسی طرح یہ بھی نہیں سوچا گیا کہ سخت آپریشن کی باتیں کی جا رہی ہیں، وہ اگر ہوگیا تو رہنما اور کارکن کیا کریں گے؟ ان کے پاس پلان بی کیا ہے؟ سب سے اہم یہ کہ دھرنے کے لیے حکومت سے جگہ لے کر اپنی قوت اور توانائی پھر سے مجتمع کرنے کا کسی نے سوچا تھا؟
بشریٰ بی بی کی کمزور قیادت
بشریٰ بی بی اپنی ضمانت کے بعد سے سیاسی طور پر ایکٹو ہوئی ہیں۔ پہلے یہ خبر آئی تھی کہ بشریٰ بی بی احتجاجی مارچ کا حصہ نہیں ہوں گی، تاہم اچانک وہ اس میں شامل ہوگئیں اور لیڈ کرنے لگیں۔ یہ ایک سنگین غلطی تھی۔ بشریٰ بی بی کے احتجاجی مارچ میں شریک ہونے سے یہ فائدہ تو ہوا کہ کارکنوں کا مورال بلند ہوا۔ وہ آگے بڑھنے اور منزل تک پہنچنے کے حوالے سے یکسو ہوگئے۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ بشریٰ بی بی نے کارکنوں کے جذبات اس قدر بڑھا دیے کہ وہ انتہائی حد تک جانے کا اصرار کرنے لگے۔ جب سیاسی اجتماعات میں کارکنوں کو کچھ زیادہ ہی پرجوش کردیا جائے تو پھر لیڈر اسی جوش کے اسیر بن جاتے ہیں، پھر انہیں خود بھی کارکنوں کے جوش وخروش کے تابع ہو کر چلنا پڑتا ہے۔
لگتا ہے کچھ ایسی غلطیاں تحریک انصاف کی قیادت سے 26 نومبر کو سرزد ہوئیں۔ بشریٰ بی بی شائد مشاورت پر زیادہ یقین نہیں رکھتیں اور وہ اپنی رائے ہی کو درست اور مقدم تصور کرتی ہیں۔ تحریک انصاف کے ہزاروں کارکنوں پر مشتمل جلوس تمام رکاوٹیں توڑتا ہوا اسلام آباد داخل ہوا تو اس نے انتظامیہ پر دباؤ تو ڈال دیا تھا۔
مزید پڑھیں: کیچ 22: عمران خان کی رہائی میں اصل رکاوٹ
حکومت کو ڈر تھا کہ اگر بڑا ٹکراؤ ہوا اور اموات زیادہ ہوئیں تو حکومت کے لیے بہت مشکل کھڑی ہوجائے گی۔ا سی لیے مذاکرات کی ونڈو کھولی گئی اور مارچ کو سنگجانی لے جانے اور وہاں کئی دنوں تک دھرنا دینے کی پیش کش بھی کی گئی۔ بشریٰ بی بی کو مارچ سنگجانی لے جانے کی پیشکش فوری قبول کر لینی چاہیے۔
دو تین بڑے فائدے ہوتے۔ ایک تو دو دنوں سے ساتھ چلنے والے تھکے ہارے کارکنوں کو کچھ سستانے، آرام کرنے کا موقع مل جاتا۔ لیڈر کو اپنے کارکنوں کا ضرور خیال رکھنا چاہیے، کارکنوں کی وجہ سے لیڈروں کی سیاست چلتی ہے۔ سنگجانی جانے کا دوسرا فائدہ یہ ہوتا کہ اس دھرنے کو ایک طرح سے حکومتی اجازت مل جاتی اور یوں پابندیوں میں بھی نرمی آجاتی، پنجاب سے کچھ لوگ مزید اس میں شامل ہوجاتے، ممکن ہے کے پی سے بھی مزید لوگ آجاتے۔
یوں ایک دو دنوں میں یہ اجتماع زیادہ بڑا ہوجاتا۔مقامی اور غیر ملکی میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پر اس کی کوریج چلتی رہتی۔اس کے قوی امکانات تھے کہ مطالبات میں سے کچھ نہ کچھ مانے جاتے۔
بشریٰ بی بی نے اپنی ضد، ناتجربہ کاری اور بیکار کے جوش وجنوں میں یہ سب گنوا دیا۔ انہوں نے جذباتی ڈائیلاگز تو بہت بولے تھے، کفن باندھ کر جانا ہے، خان کو واپس لانے تک ہر حال میں اسلام آباد میں ٹکے رہنا وغیرہ۔ عملی طور پر کریک ڈاؤن شروع ہوتے ہی وہ میدان چھوڑ گئیں۔ کارکنوں کو بیچ منجھدھار چھوڑ کر چلے جانا سخت مایوس کن، افسوسناک اور قابل مذمت رہا۔
مزید پڑھیں: روحانی شخصیات جنہوں نے عمران خان کو بدل ڈالا
بشریٰ بی بی کے ناقدین کی یہ رائے تھی کہ وہ لیڈر شپ سٹف نہیں اور ان کا سیاسی فعال ہونا پارٹی کے لیے مشکلات بڑھائے گا۔ 26 نومبر کو بشریٰ بی بی کی اختیار کردہ حکمت عملی نے عملی طور پر اس بات کو ثابت کر دیا۔ انہوں نے نہ صرف تحریک انصاف کے احتجاج کی کمر توڑ دی ہے بلکہ بانی پی ٹی آئی کے لیے پہلے سے موجود مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔
اب کیا کرنا چاہیے؟
تحریک انصاف کے پاس زیادہ آپشنز نہیں۔ انہیں سب سے پہلے تو اپنے گرفتار کارکنوں کی رہائی کا انتظام کرنا چاہیے، زخمیوں اور فوت شدگان کے ورثا کی دیکھ بھال۔ اس کے بعد پھر سے سیاسی میدان میں واپسی کے لیے سیاسی انگیجمنٹ کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کے ذریعے تحریک انصاف کو مذاکرات کا عمل شروع کرنا چاہیے اور اس بار سیاستدانوں کی طرف دیکھیں۔
ممکن ہے آنے والے دنوں میں الیکشن ٹربیونل فعال ہو جائیں، اس جانب بھی توجہ دینا چاہیے جبکہ یوں لگ رہا ہے کہ عمران خان اور دیگر رہنماؤں کے حوالے سے عدالتی کارروائیوں میں اب تیزی آئے گی۔ انصافین قانونی ٹیم کو نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عمران خان کو بھی یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اب عوامی احتجاج کے بجائے سیاسی مذاکرات کے ذریعے معاملات بہتری کی طرف جا سکتے ہیں۔