ٹرمپ کی فتح: 5 پوائنٹس جو پاکستانی سیاستدان بھی سیکھ سکتے ہیں

جمعہ 8 نومبر 2024
author image

عامر خاکوانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

   ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر بننے پر بہت سے تجزیے، تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ وہ سب اپنی جگہ اہم ہیں، مگر اس الیکشن سے چند ایسے پوائنٹس سامنے آئے ہیں جن سے پاکستانی سیاستدان بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

  کم بیک کی امید ہمیشہ رکھنا چاہیے

  ٹرمپ کے دوسری بار جیتنے کو جدید سیاسی تاریخ کا بہت بڑا کم بیک کہا جا رہا ہے۔ یہ ایک اعتبار سے انہونی ہے، لیکن جس انداز سے یہ سب ہوا، وہ کوئی کرشمہ نہیں بلکہ ایک پورا پیٹرن اور راستہ ہے۔ اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کا کم بیک کیسے ہوا؟

  ممتا زپاکستانی کالم نگار اور صحافی ہارون الرشید کا میں نے ایک بار انٹرویو لیا، اس میں انہوں نے بتایا کہ پاکستانی مین سٹریم میڈیا نے تین بار مجھے بھلا کر ایک طرح سے دفنا دیا تھا بلکہ میری قبر پر گھاس بھی اگا دی تھی، مگر میں نے ہر بار کم بیک کیا۔

  یہ بات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر سو فی صد صادق آتی ہے۔ جب وہ چار سال قبل صدارتی الیکشن ہارے تو یوں لگ رہا تھا جیسے ان کے اقتدار کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ تب ڈیموکریٹس نے بھی انہیں سیاسی طور پر دفنا کر اوپر بہت سے پھول پودے اگا دیے۔ ان پر کئی مقدمات قائم ہوئے، جن میں سب سے سنگین کیپٹل ہل پر حملہ تھا۔ ٹرمپ کے کئی قریبی ساتھیوں، حتیٰ کہ ان کے نائب صدر تک نے ان کے خلاف گواہی دی، ان کے خلاف بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ مشہور مصنف باب وڈورڈ نے ٹرمپ کے خلاف دو کتابیں لکھیں اور تیسری کتاب تو حالیہ صدارتی الیکشن سے صرف ایک مہینہ پہلے شائع کرائی۔

 ٹرمپ نے اس سب کچھ کے باوجود کم بیک کی کبھی امید نہیں چھوڑی، وہ ان سب سے لڑتے رہے، ڈٹے رہے۔ انہوں نے ری پبلکن پارٹی میں اپنی سپورٹ بھی برقرار رکھی اور مختلف قانونی طریقوں اور حیلوں سے اپنی واپسی کی امید برقرار رکھی۔ ٹرمپ کی عمر بھی خاصی زیادہ ہوچکی تھی، مگر ان کے جذبے اور ہمت نے ایک بہت مشکل کام کو ممکن کر دکھایا۔ یہ سبق امریکا کے اندر اور امریکا سے باہر بہت سوں کے لیے اہم ہوسکتاہے۔

   اپنی آڈینس سے وفادار رہیں

   ڈونلڈ ٹرمپ چار سال اقتدار سے باہر رہے، کئی محاذوں پرمختلف قسم کی سیاسی، قانونی، عدالتی جنگیں لڑتے رہے۔ کئی اپ اینڈ ڈاؤن آئے، ٹرمپ نے مگر اپنے حامیوں کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ان کے نظریات اور خیالات خواہ اچھے ہوں یا برے، وہ ان پر قائم رہے۔ ٹرمپ اپنی آڈینس سے وفادار اور جڑے رہے، جواب میں ان کے ووٹر بھی ان کے ساتھ ہی کھڑے رہے۔اس سے سبق ملتا ہے کہ سیاسی چالوں اور جوڑتوڑ کے دوران بھی اپنے خاص نظریے اور ایجنڈے پر سٹینڈ لینا چاہیے۔ ورنہ سیاسی اثاثہ لٹ جاتا ہے۔یہ ہم پاکستان میں بھی دیکھ چکے ہیں۔

  پبلک سپورٹ ہو تو لیڈر کو ٹارگٹ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں

  یہ وہ بات ہے جو امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالفوں کو سیکھنا چاہیے۔ ڈیمو کریٹ پارٹی نے یہی بنیادی غلطی کی کہ ان کی کمپین کا تمام تر فوکس ٹرمپ کی شخصیت تھی۔ وہ امریکی ووٹر ز کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ ٹرمپ آ جائے گا تو یہ ہوجائے گا، وہ ہو جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔ ڈیموکریٹ پارٹی اور کملا ہیرس نے یہ نہیں سوچا کہ ٹرمپ کی جو آڈینس ہے، جو ان کا ووٹر ہے، اس کی محرومیوں، شکایات، تلخیوں اور اس کے مطالبات کا کچھ کیا جائے۔ کملاہیرس کے ایجنڈے اور وعدوں میں ٹرمپ کے ووٹروں کے بہت بڑے بلاک کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔

  یہ بنیادی سبق اس امریکی الیکشن سے سیکھا جا سکتا ہے کہ ووٹرز کو نظرانداز کیا جائے تو ان کاسیاسی انتقام زیادہ خطرناک اور شدید ہوتا ہے۔ اگر ڈیمو کریٹ پارٹی ٹرمپ کے حامی ووٹرز کے کم از کم ایک حصے کے لیے کچھ سوچ لیتی تو شائد الیکشن کا نتیجہ مختلف ہوتا۔ یہ بات ہم نے اور بھی کئی ممالک میں نوٹ کی کہ ووٹرز کی ڈیمانڈز، محرومیوں اور سوچ پر توجہ دینے کے بجائے سیاسی جماعتوں اپنے مخالف رہنماؤں کو ٹارگٹ بناتی ہیں، کردار کشی کی کوشش کی جاتی ہے، اگرچہ اس کا فائدہ نہیں ہوتا۔ اگر اس کا کچھ فائدہ ہوسکتا تو جتنا کچھ ٹرمپ کے خلاف بولا اور لکھا گیا، وہ کارگر ثابت ہوتا اور وہ الیکشن ہار جاتے۔ الٹ ہوا اور ٹرمپ نے کملا ہیرس کو واضح اکثریت سے شکست سے دوچار کر دیا۔

   فتح جرات مندوں کے پیر چومتی ہے 

  مشہور قول ہے کہ تاریخ ہمیشہ جرات مند لوگوں کا ساتھ دیتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر لاکھ تنقید کی جائے، یہ بات تو ماننا پڑے گی کہ وہ ایک جرات مند اور نڈر آدمی ہیں، کسی کی پروا نہ کرنے والے۔ دنیا جہاں کی قوتیں خلاف کھڑی تھیں، ہمت نہیں ہاری اور آخر کار اپنا مقصد حاصل کر لیا۔ ٹرمپ پر جب قاتلانہ حملہ ہوا تو یہ ان کی زندگی کا نازک ترین لمحہ تھا۔ گولی ان کے کان کو چھو کر زخمی کر گئی، یعنی دو تین انچ ادھر ہوتی تو شائد زندگی کا سورج اسی روز غروب ہوجاتا۔ تب یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ کوئی اور حملہ آور بھی ہے یا نہیں اور کہیں کسی اور جگہ سے گولی نہ آجائے۔زخمی ٹرمپ نے مگر اس بحرانی لمحے میں جرات اور دلیری دکھائی۔ وہ ننگے پاؤں نہیں بھاگے، ضد کرکے جوتے پہنے اور اپنے حامیوں کی طرف دیکھ کر بہادری سے مکے لہرائے۔ یہ جرات مندانہ ادا ان کے حامیوں میں اضافہ کر گئی۔ اس وقت بزدلی اور پست ہمتی دکھائی جاتی تو یقیناً ٹرمپ کو شدید سیاسی نقصان پہنچتا۔

   دنیا بدل چکی، پرانا میڈیا غیر موثر ہوگیا

  حالیہ امریکی الیکشن کا سب سے اہم سبق یہی ہے کہ پرانا مین سٹریم میڈیا اب اپنی قوت اور سحر کھو بیٹھا۔ نیویارک ٹائمز جیسے بڑے اخبارات ہوں یا سی این این جیسے بڑے نیوز چینل، اب ان کے ہاتھ میں زیادہ کچھ رہا نہیں۔ امریکی میڈیا کے بہت بڑے حصے نے ٹرمپ کی شدید مخالفت کی، کالم نگاروں نے کاٹ دار تنقیدی کالم لکھے، دھواں دھار ٹاک شو ہوئے، سخت ترین اداریے لکھے گئے۔ یہ سب بیکار گیا۔ امریکی عوام کے بڑے حصے نے اس میڈیا کو ذرا برابر اہمیت نہیں دی۔ ایلون مسک نے اسی پر کہا کہ اب میڈیا ختم ہوگیا ہے اورٹوئٹر کی صورت میں میڈیا کا نیا روپ آ گیا ہے، جہاں ہر کوئی تجزیہ کار اور رپورٹر ہے۔

  یہ وہ نکتہ ہے جس پر طویل بحث ہونی چاہیے۔امریکا میں پرنٹ میڈیا قدرے کمزور ہوا ہے مگر ان اخبارات کا ای پیپر آج بھی بہت زیادہ چلتا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی پرنٹ اشاعت سوا تین لاکھ کے قریب اور ای پیپر آٹھ نوملین کے لگ بھگ ہے۔ یہ سب بھی عملی طور پر بے اثر ثابت ہوا۔ثابت ہوا کہ عوام کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جو اپنی رائے بنانے کے لیے اب اخبارکے کالم نہیں پڑھتا اور نہ ہی وہ ٹاک شوز دیکھا کرتا ہے۔ڈیجیٹل میڈیا البتہ اہم ہے اور سوشل میڈیا جہاں سٹیزن جرنلزم کی صورت میں نئی آپشنز سامنے آ چکی ہیں۔

   اس نکتہ پر پاکستان میں بھی غور کرنا چاہیے۔ یہاں بھی مین سٹریم میڈیا کمزور ہوا ہے اورڈیجیٹل میڈیا،سوشل میڈیا زیادہ طاقتور۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہماری حکومتیں یہ سمجھ رہی ہیں کہ سوشل میڈیا پر وہ پابندیاں لگا کر، سخت قوانین بنا کر کنٹرول کر لیں گی۔ ایسا مگر ہونہیں پائے گا۔ سوشل میڈیا کی اصل قوت ہی اس کا آزاد اور بن داس ہونا ہے۔ اگر وہاں پر بھی حدود وقیود کا دائرہ زیادہ تنگ ہوگیا تو پھرنئی آپشنز تخلیق ہوجائیں گی، جنہیں کنٹرول کرنا شائد ممکن ہی نہ رہے۔

  یہ وہ نکات ہیں جن سے پاکستانی سیاستدان بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ حکومتی اتحاد میں شامل رہنما اور اڈیالہ جیل میں اسیر قیدی نمبر آٹھ سو چار بھی۔

  تاریخ کے دو ہی سبق ہیں۔، بدلتے وقت کے ساتھ خود بھی بدلنا پڑتا ہے اور دوسرا یہ کہ جو جتنا سیکھے گا، وہ اتنا ہی اپنے مستقبل کو جاندار اور شاندار بنا پائے گا۔ جو نہیں سیکھے گا، روایتی گھسے پٹے حربے آزماتا رہے گا، اس کا حال پھر شکست خوردہ کملا ہیرس سا ہی ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp