پی ٹی آئی نفسیاتی جنگ ہار گئی

ہفتہ 30 نومبر 2024
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں سیاست اس وقت عمران خان کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔ پاکستان کی میڈیا انڈسٹری میں سیاسی خبریں ہوں یا کوئی ٹاک شو، پی ٹی آئی اور اس کے بانی عمران خان کا تذکرہ کیے بغیر ادھورا ہی رہتا ہے۔

عمران خان کو پاکستانی سیاست میں اپنے اس مرکزی کردار کا خوب ادراک ہے اور اسکا انہوں نے ہمیشہ بھرپور فائدہ بھی اٹھایا ہے۔ جیل میں رہنے کے باوجود بھی انہوں نے اپنی پارٹی کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ مشکل ترین حالات کے باوجود اپنے پارٹی رہنماؤں ،ورکرز اور سپورٹرز کو پارٹی سے جوڑے رکھا۔

سوال مگر یہ ہے کہ کیا عمران خان اپنے اس مرکزی کردار سے کوئی سیاسی فائدہ لے سکے ہیں یا نہیں؟ موضوع سیاست بننا اپنے طور پر اہم ہے، لیکن اس مرکزی کردار کو بہتر حکمت عملی کے ذریعے استعمال کرکے سیاست کو اپنے حق میں کرنا ایک ایسا ہنر ہے جو کم لوگ ہی جانتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:کیا رنگ لائے گا ایک اور احتجاج؟

اگر پچھلے ایک 2 سال میں سیاسی صورتحال کو دیکھا جائے اور عمران خان کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ سیاست میں اپنے اس مرکزی کردار کیوجہ سے ضرورت سے زیادہ اوور کانفیڈنٹ ہوگئے۔

اوورکانفیڈینس میں انسان ہمیشہ کوئی نہ کوئی غلط قدم اٹھا لیتا ہے اور بظاہر یہی لگتا ہے کہ عمران خان سے بھی یہی غلطی سرزد ہوئی ہے۔ 9 مئی سے پہلے انہوں نے جتنے جلسے جلوس نکالے اور جس طرح ان کو سپورٹرز نے پزیرائی بخشی وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد ان کے ساتھ ہے اس لیے وہ اب جو چاہیں کریں، ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔

اسی خوش فہمی یا غلط فہمی میں انہوں نے مبینہ طور پر 9 مئی کرڈالا۔ سانحہ 9 مئی میں اگر ذمہ داران کو سزا ملتی تو صورتحال مختلف ہوتی لیکن عدالتوں کی طرف سے ابھی تک کسی بھی رہنما یا ورکر کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔ اس طرح عمران خان ایک بار پھر اسکا غلط تاثر لے کر یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ کچھ بھی کریں ان کو کوئی سزا نہیں دے گا اور عدالتیں ان کو ہمیشہ ریلیف دیں گی۔ گویا عمران خان ایک بار پھر اوور کانفیڈنٹ ہوکر 24 نومبر کی فائنل کال دے بیٹھے اور ایسے مطالبات سامنے رکھے جن کے بارے میں وہ خود بھی جانتے تھے کہ کسی صورت قابل عمل نہیں۔

بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ کی سربراہی میں عمران خان کی فائنل کال پر جب پشاور سے سرکاری مشینری کیساتھ پی ٹی آئی لیڈران وفاق پر چڑھائی کرنے کے لیے نکلے تو ان کا پہلا ٹکراؤ پنجاب کی سرحد پر اٹک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہوا۔ تھوڑی بہت مزاحمت کے بعد جوں جوں پی ٹی آئی کا احتجاجی قافلہ وفاقی دارالحکومت کے قریب پہنچتا گیا، میڈیا اور سوشل میڈیا پر حکومت کے خلاف تنقید میں اضافہ ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ حکومت کے حامی اور حکومتی جماعت کے اپنے سپورٹرز تک نے تنقید شروع کر دی کہ یہ ایک نااہل حکومت ہے اس سے کچھ نہیں ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں:خدیجہ شاہ اور جیل اصلاحات

پی ٹی آئی کے رہنما جو احتجاج کو لیڈ کر رہے تھے، وہ اس سارے منظرنامے سے اوور کانفیڈنس کا شکار ہوگئے کیونکہ اس وقت تک لوگوں نے وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیراطلاعات عطا تارڑ کے استعفے کا مطالبہ تک کر دیا تھا۔ پی ٹی آئی گویا یہ سمجھ بیٹھی کہ انہوں نے آدھے راستے ہی میں معرکہ سر کر لیا ہے، اب اسلام آباد پہنچتے ہی ان کو حکومت طشتری میں رکھ کر پیش کردی جائے گی۔

جونہی پی ٹی آئی کا قافلہ اسلام آباد کے نزدیک پہنچا میڈیا پر یہ خبریں آئیں کہ حکومت اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں اور پی ٹی آئی کو یہ آفر کی گئی تھی کہ وہ سنگ جانی کے مقام پر دھرنا دے لے، لیکن بشریٰ بی بی اوور کانفیڈینس کا شکار ہو کر بضد تھیں کہ دھرنا ہر حال میں ڈی چوک پر ہی ہوگا۔

پھر ہوا بھی یہی، بشریٰ بی بی اس احتجاجی ریلے کو اسلام آباد میں ڈی چوک کے قریب تک لے آئیں۔ جس دن یہ احتجاجی قافلہ اسلام آباد پہنچا اسی دن بیلاروس کے صدر پاکستان کے دورے پر وفاقی دارالحکومت میں موجود تھے، ایسے میں حکومت نے کسی بھی طرح کی طاقت استعمال کرنے سے اجتناب برتا، لیکن جونہی رینجرز اور پولیس کے اہلکاروں پر گاڑی چڑھنے کا واقعہ رونما ہوا، اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ حکومت اب زیادہ دیر برداشت نہیں کرے گا۔ وہی ہوا جیسے ہی بیلاروس کے صدر پاکستان سے روانہ ہوئے، حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی کے احتجاجی ریلے سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:کوئٹہ پھر لہو لہو

ہزاروں کی تعداد پر مشتمل احتجاجی مجمعے سے نمٹنے، اسے منتشر کرنے اور پسپا کرنے کے لیے مؤثر حکمت عملی کے طور پر نفسیاتی کھیل کھیلا گیا، لیکن پی ٹی آئی اس کھیل کو سمجھ نہیں پائی۔ حکومت کی طرف سے گرینڈ آپریشن سے پہلے ایک نفسیاتی وار استعمال کیا گیا اور ان مظاہرین بشمول لیڈرز اور ورکرز کے دلوں میں خوف پھیلایا گیا۔ تمام لائٹس بند کرنے کے بعد ہوائی فائرنگ کے ذریعے خوف و ہراس پیدا کیا گیا، جس سے نہ صرف پی ٹی کے کے ورکرز ڈر گئے، بلکہ پارٹی کی سینئیر قیادت جو کہ اس احتجاج کو لیڈ کررہی تھی بشمول بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور، مظاہرین کو بے آسرا چھوڑ بھاگ کھڑے ہوئے۔

جب ورکرز کو احساس ہوا کہ ان کے لیڈرز ان کو بے آسرا چھوڑ کر خود اپنی جان بچا کر بھاگ چکے ہیں، تو اسکے بعد کسی بھی ورکر کے لیے وہاں ٹھہرنا انتہائی دشوار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بالکل ہی قلیل وقت میں اتنی بڑی تعداد میں ورکرز نہ صرف پسپا ہوئے بلکہ احتجاج چھوڑ کر اپنے اپنے شہروں کو واپس چلے گئے۔ اور یوں پی ٹی آئی جو کہ ان احتجاج کے دنوں میں طاقتور نظر آرہی تھی، میدان چھوڑ کر بھاگ گئی اور جیتی ہوئی جنگ نفسیاتی طور پر ہار گئی۔

اگر اس رات بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور اپنے ورکرز کیساتھ ڈٹے رہتے تو اگلی صبح پاکستانی سیاست کا منظر نامہ کچھ اور ہوتا ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp