کوئٹہ پاکستان کا وہ شہر ہے کہ جو بھی یہاں جاتا ہے اس کی محبت میں گرفتار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایک صوبے کا دارالحکومت ہونے کے باوجود اب بھی اس شہر کے لوگوں کے دلوں میں خالص پن، سادگی، خلوص اور محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، نہ ہی اس شہر کے بسنے والے لوگوں میں کوئی بناوٹ نظر آتی ہے اور نہ ہی ملک کے دیگر بڑے شہروں کی طرح نفسا نفسی کا شکار نظر آتے ہیں۔
ابھی چند ماہ پہلے کوئٹہ جانے کا اتفاق ہوا تو کوئٹہ ریلوے اسٹیشن کی پارکنگ کے ساتھ بنے ہوٹل پر ایک دوست کے ساتھ چائے پینے بیٹھ گئے، اسٹیشن کے باہر چائے کے اس ہوٹل پر اور اردگرد لوگ جو کہ غالباً صوبے کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے تھے ان کی وضع قطع سے اب بھی یہی معلوم ہوتا تھا جیسے یہ جدید دنیا سے بالکل ہی روشناس نہ ہوں۔ نہ ان کے پاس کوئی موبائل، نہ دیگر جدید لوازمات۔ نیچے چٹائیاں بچھا کر بڑی بڑی روایتی پگڑیاں اور قبائلی لباس پہنے اپنی ہی دھن میں مگن ایک دوسرے کے ساتھ محو گفتگو تھے، یہ ماحول دیکھ کر ایسے محسوس ہوا جیسے میں کوئی نصف صدی پیچھے سفر کرکے ایک نئی دنیا میں پہنچ گیا ہوں۔
کوئٹہ کے بازاروں میں جائیں، سڑکوں پر سفر کریں، مساجد میں جائیں یا کسی سڑک کنارے کھڑے ہوکر آتے جاتے لوگوں کو دیکھیں ہر ایک شخص میں ایک اپنائیت اور خالص پن نظر آتا ہے۔ سچ پوچھیں تو مجھے اس شہر سے ہر بار پیار ہوجاتا ہے جب جب یہاں جانا ہوا۔
کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خودکش حملے کی خبر سنی تو آنکھوں کے سامنے وہ چند ماہ پہلے والے مناظر کی جیسے فلم چلنا شروع ہو گئی ہو، وہ پرخلوص لوگ جو دنیا کی جدیدیت سے بے خبر ہوکر اپنی دنیا ہی میں مگن تھے، نجانے ایسے کئی معصوم لوگ جب دھماکا ہوا تو اسی طرح اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے جارہے ہوں گے، ان کو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ وہ اپنے پیاروں سے ملنے کے بجائے فرشتہ اجل سے ملنے جارہے ہیں۔ ان میں سے کئی اپنے والدین، بچوں اور چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے کھلونے، ڈرائی فروٹس یا دیگر کئی ایسی چیزیں لے کر جارہے ہوں گے، مگر ان کو کیا پتا تھا یہ سب چیزیں کسی خودکش حملہ آور کے دھماکے میں جل کر راکھ ہوجائیں گی۔
اس پیار اور محبتوں بھرے شہر کو نجانے کس کی نظر لگ گئی ہے، کوئٹہ کیونکہ ایک غریب اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹے صوبے کا دارالخلافہ ہے تو چند دن کے بعد اس اندوہناک واقعہ کو بھی ہمارے حکام نظر انداز کرتے ہوئے معمولات زندگی میں اس وقت تک مصروف ہوجائیں گے جب تک کہ خدانخواستہ پھر کوئی ایسا سانحہ نہیں ہو جاتا۔
آخر کب تک ہمارے حکام شتر مرغ کی طرح دہشت گردی کے اس عفریت سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنا سر ریت میں دبائے رکھیں گے، بلوچستان ایک شورش زدہ صوبہ ہے۔ اس صوبے میں جاری شدت پسندی کے حقائق بھی باقی ملک سے مختلف ہیں۔ یہاں بین الاقوامی مفادات اور تذویراتی کھیل بھی جاری ہے اور مقامی مسائل بھی اس شورش کی ایک اہم وجہ ہے۔ ان دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی اس صوبے کے معاملات حل کرنے ہوں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں رہنے والی نوجوان نسل میں شعور آچکا ہے۔ ان کو ریاست سے کچھ شکوے شکایات اور تحفظات بھی ہیں، اور آج کل کی نوجوان نسل طاقت کی زبان نہیں سمجھتی۔ اس لیے ریاست پاکستان کو بھی طاقت کے استعمال کے بجائے بات چیت کے ذریعے جائز شکایات کو دور کرنا چاہیے اور قومی دھارے میں لانے کے لیے یکساں مواقع فراہم کیے جانے چاہییں۔
جو لوگ بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے اپنے مطالبات منوانا چاہتے ہیں ریاست کو ان کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے چاہییں اور ان کے جائز مطالبات ماننے چاہییں، جبکہ جو لوگ بات چیت کے بجائے بندوق کے ذریعے ریاست پر حملہ آور ہوتے ہیں ان کے ساتھ طاقت کی زبان میں ہی بات چیت کرنی چاہیے۔ ریاست کو اپنی پرانی پالیسی کو ترک کرنا ہوگا، جس میں مقامی سرداروں کے ذریعے لوگوں کو کنٹرول کیا جاتا تھا، کیونکہ اب سرداری نظام کا زمانہ نہیں رہا۔
مقامی مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ جو بین الاقوامی پراکسیز کا کھیل صوبے بھر میں جاری ہے اس کے لیے بھی ایک مؤثر حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ بلوچستان کے مسائل اور شورش کے خاتمے کے لیے پاکستان کو ایک مؤثر سفارتی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ دوست ممالک بالخصوص چین کو اعتماد میں لے کر بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر بلوچستان میں جاری غیر ملکی پراکسیز اور ایکٹرز کو ثبوتوں کے ساتھ ایکسپوز کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے قومی سطح پر بھی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ تمام سیاسی جماعتوں بشمول پی ٹی آئی اور قوم پرست جماعتوں کو اعتماد میں لے۔ پہلے قومی سطح پر اتحاد اور اتفاق رائے کا مظاہرہ کیا جائے، اس کے بعد بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کے پیچھے کارفرما عوامل کو دنیا کے سامنے لایا جائے۔ خدارا بلوچستان اور کوئٹہ لہولہان ہے، یہاں مزید خون بہنے سے بچائیں۔