قبائلی ضلع باجوڑ کی پہلی خاتون وکیل رابعہ گل کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع میں خواتین وکلا کی کم تعداد کی وجہ سے خواتین کو انصاف کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
رابعہ گل پشاور ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ باجوڑ میں بھی کیسز ڈیل کررہی ہیں۔ رابعہ گل کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کے ضم اضلاع میں تعلیم کی شرح کم ہے اس وجہ سے بھی خواتین فیلڈ میں کم دکھائی دیتی ہیں۔ رابعہ گل بتاتی ہیں ضم اضلاع سے خواتین فیملی کیسز زیادہ درج کروا رہی ہیں۔
وی نیوز کے ساتھ بات چیت کے دوران رابعہ گل نے بتایا کہ شروع میں انکو گھر کی طرف سے مشکلات پیش آئی تاہم انہوں نے ہمت نہ ہاری اور اب وہ باجوڑ میں آسانی سے کیسز کو ڈیل کررہی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں رابعہ گل نے کہا کہ باجوڑ میں سہولیات کی کمی کی وجہ سے انہوں نے پشاور میں تعلیم حاصل کی۔ وہ بتاتی ہیں تعلیم کی کمی، قبائلی اضلاع میں عدالتی نظام نہ ہونا اور سماجی روئیوں کی وجہ سے باجوڑ میں خواتین وکلاء کی کمی ہے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ خواتین اس فیلڈ میں ضرور آئیں گی۔
خیبرپختونخوا میں کتنی خواتین وکلاء پریکٹس کررہی ہیں؟
خیبرپختونخوا بار کونسل کے اعدادو شمار کے مطابق صوبے میں اس وقت 22 ہزار وکلاء پریکٹس کررہے ہیں جن میں سے تقریباً 15 ہزار فعال ہیں۔ کل فعال وکلا میں سے تقریباً 3200 خواتین ہیں جبکہ قبائلی اضلاع میں فعال خواتین وکلاء کی تعدا دصرف 25 ہے۔
خیبرپختونخوا بار کونسل کے وائس چیئرمین صادق علی نے اس حوالے سے بتایا کہ بار کونسل خواتین وکلاء کو سامنے لانے کے لیے بھرپور اقدامات کررہی ہیں۔ ان خواتین وکلاء کو تربیت دی جارہی ہے جبکہ ضم اضلاع سے تعلق رکھنے والی کئی وکلاء کو وظیفے بھی دیے جا چکے ہیں۔
صادق علی کے مطابق ابھی تک 160 خواتین وکلاء کو تربیت دی جاچکی ہے جبکہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ان خواتین کی پروفیشنل گروتھ کی جاتی ہے ساتھ میں انکو بتایا جاتا ہے کہ ماحول ساز گار ہے اور وہ بلا کسی خوف کے وکالت کرسکتی ہیں۔