قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات کے لیے فنڈز مختص کرنے کا منی بل اتفاق رائے سے مسترد کردیا۔
قیصر شیخ کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا کا کہنا تھا کہ پاکستان کو فنڈز کی قلت اور بھاری خسارے کا سامنا ہے۔ ہمارے پاس مختص بجٹ کے علاوہ اضافی فنڈ دستیاب نہیں ہیں۔
ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے موقف اپنایا کہ اضافی فنڈ فراہم کیے تو یہ آئی ایم ایف پروگرام سے تجاوز ہوگا لہذا حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ خسارے تک محدود رہنا چاہتی ہے۔
رکن کمیٹی خالد مگسی کا کہنا تھا کہ مالی مشکلات کے باعث سیلاب سے متاثرہ بلوچستان اور سندھ کو امداد نہیں ملی۔ اس پس منظر میں انتخابات کے لیے اتنی بڑی رقم مختص کیے جانے سے دونوں صوبوں میں مایوسی پھیلےگی۔
چیئرمین کمیٹی قیصر شیخ نے دریافت کیا کہ کیا ماضی میں بھی ایسا منی بل متعارف کرایا گیا ہے اور اس کی اب کیوں ضرورت پیش آئی ہے۔ جس پروزارتِ قانون کے حکام نے بتایا کہ منی بل پارلیمنٹ میں پیش ہونے کے بعد قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ میں پیش ہو جاتا ہے۔
چیئرمین کمیٹی بولے؛ گزشتہ 10 سال میں تو ایسا ہوتا نہیں دیکھا، کمیٹی کوئی حکومتی بل تب تک منظور نہیں کرے گی جب تک وزیر خزانہ خود آخر بریف نہیں کرتے۔ ’اگر وزیر خزانہ نہ آئے تو کوئی حکومتی بل کلیئر نہیں کرنا چاہیے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار معاشی معاملات میں سنجیدہ نہیں ہیں۔‘
چیئرمین کمیٹی قیصر شیخ کا کہنا تھا کہ ملک اس وقت تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیرخزانہ یہاں آکر جواب دیں ورنہ وہ کمیٹی کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دیدیں گے۔
’جو 13فیصد پر ’ہاٹ منی‘ آئی اس سے فائدہ اٹھانے والے کون تھے؟ اس سے امیر ترین لوگوں کو فائدہ پہنچایا گیا، ان کی تفصیلات کمیٹی کو فراہم کی جائیں۔ اختیارات وزیر خزانہ کے پاس ہیں وہ آکر کمیٹی کو اصل صورتحال بتائیں۔‘
وزیر مملکت برائے خزانہ کا کہنا تھا کہ ملک کی مکمل مالی صورتحال آپ کے سامنے رکھ دی ہے۔ ہم آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد کے مرحلہ میں ہیں۔ مالی خسارہ ہدف میں رکھنے کے پابند ہیں۔ آئی ایم ایف کوبتایا ہے جب وزارت پیٹرولیم قابل عمل طریقہ کار تیار کرلےگی تو انہیں بھی اعتماد میں لیا جائےگا۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن عمرحمید کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں 21 ارب روپے کی فنڈنگ پر جواب دینا ہے، الیکشن کے لیے بجٹ میں صرف 5 ارب روپے جاری ہوئے۔
رکن کمیٹی برجیس طاہر کا کہنا تھا کہ ہم الیکشن کمیشن کو ان حالات میں پیسے نہیں دے سکتے۔ انہوں نے سیکرٹری الیکشن کمیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سن لیں آپ کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
’الیکشن ایک وقت میں کرائیں ورنہ چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی بڑھےگا۔ صرف پنجاب میں الیکشن ملک اور معیشت کے لیے خطرہ ہیں۔ سپریم کورٹ کے 8 ججز کو صرف پنجاب کے الیکشن کی فکر ہے۔‘