اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گُپھا میں ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا
اسے کہنا ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کُہرے کی دیواروں میں لرزاں ہے
اسے کہنا شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں
اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے
اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
تو کیسے برف پگھلے گی
اسے کہنا کہ لوٹ آئے
(عرش صدیقی کی نظم ’اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے‘۔)
تیس دن تک اسی دیوار پہ لٹکے گا یہ عکس
ختم اک دن میں دسمبر نہیں ہونے والا
(دانیال طریر)
دسمبر سال کا آخری مہینہ اپنے جلو میں جاڑے کی خنک شامیں، یخ بستہ ہوائیں، بھاپ اگلتے کافی کے سپ اور بہت سی بھولی بسری یادوں کا ہجوم لیے چلا آیا ہے۔ دسمبر جدائی، ہجر اور اداسی کا استعارہ ہے تو آئندہ برس کی اُمیدِ نو بھی ہے۔ کہی ان کہی وابستگیوں کی بدولت دسمبر، شعراء و ادباء کی توجہ کا محور رہا ہے۔ گرمیوں کی چھاؤں کی طرح دسمبر کی دھوپ بھی خاص توجہ مانگتی ہے:
کیا کیا گلاب کھلتے ہیں اندر کی دھوپ میں
آ مل کے مجھ کو دیکھ دسمبر کی دھوپ میں
(ظفر اقبال)
ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کہرے کی دیواروں میں لرزاں، ایسے میں دسمبر کی سہمی سہمی دھوپ کسی نعمت سے کم نہیں۔ شگوفے ٹہنیوں پہ خوابیدہ، سبزہ شبنم کے ناز نخرے اٹھانے پر مجبور، خزاں کے شوخ رنگ اداس موسم میں دل تپکتا ہے۔ بے لباس درختوں اور در و دیوار پر دھوپ چھاؤں کا کھیل، کیسے کیسے مناظر تخلیق کرتا ہے۔ سحاب چہرے گلنار کرتی کومل کرنیں اور گلابی جاڑے میں ہر سُو بکھرے مٹیالے زرد پتے دسمبر کی رُوپہلی دھوپ کو بھی ہم رنگ کرلیتے ہیں۔
ہم منائیں گے نیا سال تری یاد کے ساتھ
زخم اس بار ہرا ہوگا دسمبر والا
(مقصود آفاق)
نرم گرم چاہتوں سے اَٹی دھوپ، یادوں میں گھلی چاندنی کی طرح سرما کو گرماتی ہے تو من دھوپ کی برسات میں بھیگا رہنا چاہتا ہے۔ مطلع صاف ہو تو دھیمی دھیمی اُجلی دھوپ، دل آنگن کی طرح مناظر بھی نکھار دیتی ہے، ایسے میں زمین پر بیٹھے پرندے بھی سوچتے ہوں گے، جب دھوپ تھی قسمت تو شجر کس کے لیے تھا؟
مجھ سے پوچھو کبھی تکمیل نہ ہونے کی چبھن
مجھ پہ بیتے ہیں کئی سال دسمبر کے بغیر
(محمد علی ظاہر)
دسمبر کی دھوپ چبھن بھی دے تو اسے سینکنے اور تاپنے کو جی چاہتا ہے۔ بادلوں کا پردہ چیر کر آتی میٹھی دُھوپ سبزے سے پلو سرکاتی ہے تو اسے سمیٹ لینے کو دل مچلتا ہے۔ دسمبر کی نرم و گرم دھوپ پتوں کی رفاقت سے محروم درختوں اور ٹھٹھرتے مناظر کے لیے بھی زندگی کی پیامبر ہے۔
بارہ گھنٹوں کی ہے اک رات جو ٹلتی ہی نہیں
ہجر بھی عین دسمبر میں ملا ہے مجھ کو
(محمود احمد)
دسمبر کی دھوپ نرمی و لطافت کی بدولت بہت سے لوگوں کی محبوبہ ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ خیمہ ء دھوپ میں مقیم دل والے، دسمبر کی دھوپ کے منتظر رہتے ہیں:
دسمبر کی سنہری دھوپ میں اب بھی ٹہلتے ہو
کسی خاموش رستے سے کوئی آواز آتی ہے
(شانی مہر)
انہی سرد رُتوں میں کسی کا خیال آتے ہی خوشی اور ملال کی سی کیفیت میں گھِر جانے والی اچھوتی شاعرہ پروین شاکر نے کہا تھا:
رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی
سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی
ہر چند کہ سایوں سے محبت کی سزا کڑی دھوپ ہی ہے مگر دھوپ کی منڈیر پہ کھڑا کڑی دھوپ کا مسافر اونچی عمارتوں سے شکوہ کناں ہے کہ وہ اس کے حصے کی دھوپ بھی کھا گئیں۔ جون ایلیا نے تو یاد کی دھوپ کو روز کی بات قرار دیتے ہوئے اپنے لیے چاندنی کو خطرہ قرار دیا تھا۔
شاعرِ من محسن نقوی کہا کرتے تھے کہ ’ دسمبر مجھے راس آتا نہیں‘۔
کئی سال گزرے
کئی سال بیتے
شب و روز کی گردشوں کا تسلسل
دل و جاں میں سانسوں کی پرتیں الٹے ہوئے
زلزلوں کی طرح ہانپتا ہے
چٹختے ہوئے خواب
آنکھوں کی نازک رگیں چھیلتے ہیں
مگر میں اک سال کی گود میں جاگتی صبح کو
بے کراں چاہتوں سے اٹی زندگی کی دعا دے کر
اب تک وہی جستجو کا سفر کر رہا ہوں
گزرتا ہوا سال جیسا بھی گزرا
مگر سال کے آخری دن
نہایت کٹھن ہیں
مرے ملنے والو
نئے سال کی مسکراتی ہوئی صبح گر ہاتھ آئے
تو ملنا
کہ جاتے ہوئے سال کی ساعتوں میں
یہ بجھتا ہوا دل
دھڑکتا تو ہے مسکراتا نہیں
دسمبر مجھے راس آتا نہیں
سینیئر صحافی اور معروف شاعر انوار فطرت نے اپنی نظم ’اداسی ایک لڑکی ہے‘ میں دسمبر کی گھنی راتوں اور جولائی کی دوپہروں کو یوں عکس بند کر دیا ہے کہ نظم بڑھتے بڑھتے منظر بھی تخلیق کرنے لگتی ہے:
دسمبر کی گھنی راتوں میں
جب بادل برستا ہے
لرزتی خامشی
جب بال کھولے
کاریڈوروں میں سسکتی ہے
تو آتش دان کے آگے
کہیں سے وہ دبے پاؤں
مرے پہلو میں آتی ہے
اور اپنے مرمریں ہاتھوں سے
میرے بال سلجھاتے ہوئے
سرگوشیوں میں درد کے قصے سناتی ہے
جولائی کی دوپہریں
ممٹیوں سے جب اتر کر
آنگنوں میں پھیل جاتی ہیں
اور اک آوارہ سناٹا
چھتوں پر بھاری قدموں سے
بڑی آہستگی کے ساتھ چلتا ہے
تو وہ چپکے سے میرے پاس آتی ہے
اور اپنے دھیمے لہجے میں
وہ ساری داستانیں کہہ سناتی ہے
جنہیں سن کر میں دھیمی آنچ پر
پہروں سلگتا ہوں
کسی گرجے کے ویراں لان میں
جب جنوری
اپنے سنہری گیسوؤں کو کھول کر
کوئی پرانا گیت گاتی ہے
تو وہ اک ان چھوئی نن کی طرح
پتھر کے بنچوں پر
مرے کاندھے پہ سر رکھے
مرے چہرے پہ اپنی انگلیوں سے
سوگ لکھتی ہے
کسی وادی کے تنہا ڈاک بنگلے میں
کبھی جب شام روتی ہے
سیہ کافی کے پیالوں سے
لپکتی بھاپ میں
باتوں کے بسکٹ پھول جاتے ہیں
تو وہ بھی جنگلی بیلوں سے
اٹھتی خوشبوؤں سے جسم پاتی ہے
مرے نزدیک آتی ہے
مری سانسوں کی پگڈنڈی پہ
دھیرے دھیرے چلتی ہے
مرے اندر اترتی ہے
معروف شاعر خالد شریف کا یہ شہرہ آفاق شعر تو ہے ہی خاصے کی شہ:
ذرا سی دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
یہ فرصتیں ہمیں شاید نہ اگلے سال ملیں
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔