پاکستان کے لیے ایوی ایشن سیکٹر سے اچھی خبریں آرہی ہیں۔ چند روز قبل ’ایئر کراچی‘ کے نام سے نئی فضائی سروس کے آغاز کی خبر، یورپ کے لیے پی آئی اے کی پروازوں کی بحالی کی خبر اور پھر پی آئی اے سے ہی جڑی مزید بہتر خبریں بھی زیر گردش ہیں۔
اگر بات کی جائے ایئر کراچی کی تو سوال یہ ابھرتا ہے کہ ایئر کراچی لانچ کرنے والوں نے پی آئی اے کیوں نہیں خریدا اور اگر انہوں نے نہیں خریدا تو پی آئی اے کون خرید رہا ہے؟ ساتھ ہی یہ بھی سوال ہے کہ ایئر کراچی اہل کراچی اور پاکستان کے لیے کیا سہولیات لے کر آرہی ہے؟
یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے کی نجکاری: بلیو ورلڈ سٹی کی 10ارب روپے کی بولی مسترد
ان سوالوں کے جواب میں گوہر گروپ آف کمپنیز کے چئیرمین محمد حنیف گوہر نے وی نیوز کو بتایا کہ ایئر کراچی کا خیال ان کے ذہن میں ایسے آیا کہ وہ 15 برس قبل ایئرلائن لانچنگ کا سوچ رہے تھے اور اس سلسلے میں انہوں نے ایئر 7 ایوی ایشن کے نام سے ایئر لائن رجسٹرڈ کروائی تھی لیکن وہ پروجیکٹ ناگزیر وجوہات کی بنا پر مکمل نہ ہوسکا لیکن ایئر سیال جو کہ سیالکوٹ کے تاجروں کا پروجکیٹ ہے اسے دیکھ کر 15 برس پرانا خواب دوبارہ یاد آیا اور ایئر سیال کا ماڈل میں نے کراچی کے تاجروں کے سامنے رکھا اور انہوں نے اسے خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس کو عملی جامہ پہنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اسی طرح ایئروائس مارشل ریٹائرڈ عمران ماجد کی بھی ایئر لائن بنانے کی خواہش تھی لہٰذا اس پروجیکٹ کی ٹیکنیکل سائیڈ انہوں نے جبکہ مالی معاملات میں نے سنبھال لیے۔
ایئر کراچی نام کیوں رکھا گیا؟
اس حوالے سے محمد حنیف گوہر کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ کراچی کے تاجر شہر کی اونر شپ لیں اور کراچی کا نام اوپر لے کر جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کافی عرصے سے کراچی کے لوگ پسماندگی اور بدحالی کا شکار ہیں اور میں اگر ان دنوں میڈیا پر چھایا ہوں تو اس کی وجہ بھی کراچی کا نام ہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے کراچی میں پذیرائی ملی کہ کم سے کم کراچی کا نام کہیں تو اجاگر ہوا اور جب بھی ہم لانچنگ کریں گے تو مارکیٹ میں کوئی نہ کوئی فرق ضرور ڈالیں گے۔
پی آئی اے کیوں نہیں خریدا؟
پی آئی اے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے میں اس وقت بہت مسائل ہیں اور افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارا قومی اثاثہ ہے اس حال کو پہنچ گیا کہ اسے کوئی خریدنے کو تیار نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پی آئی اے کو خریدنے کے لیے کچھ الگ لوگ سوچ رہے ہیں، چند دنوں میں پی آئی اے کے حوالے سے اچھی خبر آنے والی ہے جو کہ اچھے لوگوں کے ہاتھوں میں جانے والا ہے اور پاکستان کا اثاثہ پاکستان کے لوگوں کے پاس ہی رہے گا۔
پی آئی اے کی لگائی گئی بولی مناسب تھی؟
محمد حنیف گوہر کہتے ہیں کہ پی آئی اے کو خریدنے کے لیے بہت کم بولی آئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کے لیے الگ سے مشاورت جاری ہے لیکن خریدار کے کچھ تحفظات ہیں اور اگر وہ دور کر دیے گئے تو پی آئی اے کو بھی خرید لیا جائے گا۔۔
کیا کراچی کی تاجر برادری پی آئی اے کو خریدنے میں دلچسپی لے رہی ہے؟
اس حوالے سے محمد حنیف گوہر کا یہ کہنا تھا کہ پاکستان کے مقتدر حلقے اس خواہش کا اظہار کر رہے ہیں کا قومی اثاثے پی آئی اے کو پاکستان کی تاجر برادری خرید لے اور امید ہے کہ پاکستان کے بڑے تاجر مقتدر حلقوں کی اس خواہش کے مطابق پی آئی اے کو خرید لیں گے اور اس حوالے سے بہت جلد بڑی خوش خبری ملے گی۔
نئی ایئر لائن کراچی والوں کو کیا دینے جا رہی ہے؟
اس سوال پر محمد حنیف گوہر کا یہ کہنا تھا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن کراچی والوں کے لیے ہم ایسی پالیسیز لے کر آئیں گے جو باقی ایئر لائنز سے ایئر کراچی کو ممتاز بنائیں گی۔
مزید پڑھیے: پاکستانیوں کے لیے خوشخبری: پی آئی اے کی یورپ کے لیے پروازوں پر عائد پابندی ختم
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ہماری مارکیٹنگ ٹیم کام کر رہی ہے گو اس وقت ہم ابتدائی دور سے گزر رہے ہیں لیکن بہت جلد ہم اس حوالے سے کوئی اعلان کرسکیں گے۔
آرمی چیف سے تاجروں کی آخری ملاقات میں کیا طے پایا؟
اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بچھلے دنوں ہماری ملاقات چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر سے ہوئی جس میں تاجر برادری نے کراچی کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز دیں۔
مزید پڑھیں: پی آئی اے کی خریداری: غیرملکی پاکستانی گروپ نے حکومت کو 100 بلین روپے کی پیشکش کردی
محمد حنیف گوہر کا کہنا تھا کہ چیف آف آرمی اسٹاف نے یقین دلایا ہے کہ وہ کراچی پر خصوصی توجہ دیں گے اور جب ایسا ہوگا تو اہل کراچی کو ان کے شہر میں نمایاں مثبت تبدیلی نظر آئے گی۔
ایئر کراچی کے کتنے جہاز ہوں گے؟
محمد حنیف گوہر کا کہنا تھا کہ ایئر کراچی نہ صرف ملک کی معیشت کے لیے بہتر ثابت ہوگی بلکہ اس سے نوجوانوں کو روزگار بھی ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ پہلے ہم 3 جہازوں سے آغاز کریں گے اور ایک سال بعد جب ہم بین الاقوامی پروازوں کے اہل ہو جائیں گے تو اس میں مزید 4 جہازوں کا اضافہ کردیں گے اور پھر جہازوں کی تعداد بتدریج بڑھاتے جائیں گے۔