وقت کی دھول میں گم ہوتی فیصل آباد کی اولین جامع مسجد اور دارالعلوم

جمعہ 14 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

فیصل آباد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ پاکستان کا پہلا شہر ہے جو باقاعدہ ٹاؤن پلاننگ کے مطابق بسایا گیا تھا۔ مگر یہ بات اس وقت کی ہے جب ابھی پاکستان بننے میں نصف صدی سے بھی زیادہ کا عرصہ باقی تھا۔ یہ انگریزوں کا دور تھا اور جس وقت یہ شہر آباد ہوا تب اس کا نام ’لائل پور‘ رکھا گیا تھا۔

شہر میں بنیادی شہری سہولیات کی فراہمی کے ساتھ یہاں آباد ہونے والوں کی مذہبی ضروریات کا بھی خیال رکھا گیا اور لائل پور میں مرکزی مسجد کے قیام کے لیے جالندھر کے ایک معروف عالم سے رابطہ کیا گیا۔

وہ معروف عالم کون تھے؟ اور ان کی قائم کردہ مسجد و دارالعلوم کا کیا نام ہے؟ اور ان کی تکمیل کی کیا صورت رہی؟ اس کا تاریخی احوال مسجد و دارالعلوم کے متولی و  منتظم اعلیٰ میاں ہارون یٰسین ایڈووکیٹ کے الفاظ میں ملاحظہ کریں:

’1896ء میں جب انگریز حکومت نے لائل پور بسانے کا منصوبہ بنایا تو تب جالندھر میں موجود میرے پڑ دادا میاں منشی فتح دین سے درخواست کی، تاہم آغاز میں انہوں نے یہاں آنے سے معذرت کر لی تھی۔

سر گنگا رام کا کردار

میاں منشی فتح دین کی سرگنگا رام کے ساتھ بہت قریبی دوستی تھی، لہٰذا انگریزوں نے سرگنگا رام سے درخواست کی کہ  آپ میاں صاحب سے کہیں ہم وسطی پنجاب میں شہر آباد کرنا چاہتے ہیں، زرعی منڈی بنانا چاہتے ہیں چنانچہ سرگنگا رام نے میاں صاحب سے درخواست کی اور انہیں منا لیا۔

مسجد کی تیاری

اس کے بعد انہوں نے منصوبہ بنایا کہ لائل پور میں رہنے کے لیے اپنا گھر بنایا جائے۔ اس کے لیے انہوں عبداللہ پور منتخب کیا۔گھروں کی تعمیر کے لیے اس مقام پر بھٹے لگائے گئے جہاں اب ناز سنیما اور ریو سینما ہیں۔ اینٹوں کی تیاری کا آغاز ہوا تو ساتھ ہی میاں صاحبان کی کوٹھیاں اور اس مسجد کی تعمیر بھی شروع ہو گئی۔

پہلے امام

مسجد کی تعمیر میں اٹھنے والی لاگت کا تو میں اندازہ نہیں لگا سکتا البتہ رقبہ اس کا 9 کنا ل کے قریب ہے یعنی ایک ایکڑ سے تھوڑا زیادہ ہے۔ اس کا مرکزی دروازہ 1911ء میں بنا۔ جس وقت یہ مسجد تعمیر ہوئی تب ساتھ ہی دارالعلوم بھی بنایا گیا۔ اس مسجد کے پہلے امام مفتی یونس مرحوم دارالعلوم دیوبند ہندوستان سے فارغ التحصیل ایک جید ہستی تھے۔ وہ لائل پور کے پہلے مفتی اعظم تھے، ان کی قبر بھی مسجد سے ملحق جنازہ گاہ میں موجود ہے۔

معروف علماء کی درسگاہ

مفتی صاحب نے یہاں تعلیم کا نظام شروع کروایا۔ یہاں پر حفظ کا نظام شروع ہوا تو بہت سے جید علمائے دین یہاں پیدا ہوئے۔مفتی زین العابدین کا نام آپ نے سنا ہوگا۔وہ ورلڈ اسلامک مشن کے چیئرمین تھے اور رویت حلال کمیٹی کے بھی چیئرمین رہے۔ مفتی یونس مرحوم کے بعد مفتی زین العابدین یہاں تقریباً 28 سال خطیب رہے۔ ان کے بعد مولانا تاج محمود تھے وہ بھی رویت حلال کمیٹی کے رکن تھے اور مولانا شوق وہ بھی رویت حلال کمیٹی کے رکن تھے۔ وہ سب یہاں پڑھتے رہے اور یہاں سے فارغ التحصیل ہوئے۔

مسجد کی بحالی

یہ چونکہ پہلی مسجد تھی وقت کے ساتھ باہر کی سڑک اوپر ہوتی گئی یہاں تک کہ مسجد سڑک سے تقریباً چار فٹ نیچے ہوگئی۔ ایک دن اچانک بہت شدید بارش ہوئی۔ میں فٹا فٹ بھاگا  کہ اس کے نالے، پرنالے جو نکاسی آب کے لیے ہوتے ہیں وہ بند تو نہیں ہیں۔ مسجد میں آہستہ آہستہ پانی بھر گیا، اتنا پانی بھر گیا کہ باہر سے گٹر جب ابلے تو  پانی اندر آ گیا۔ اس  دن میں بڑا پریشان ہوا ۔ میری والدہ اللہ انہیں غریق رحمت کرے، انہوں نے مجھے کہا کہ تم ہمت کرو، شروع کرو میرا اللہ خود بنائے گا وہ سارے بندوبست کر دے گا۔ چنانچہ میں نے ہمت کی اور جس حد تک بنایا جا سکتا تھا بنایا۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم کوئی بھی چندہ نہ لیں۔

ثقافتی ورثہ

جس وقت ہم نے مسجد شہید کر کے بنانی شروع کی تو ہم نے فیصلہ کیا کہ یہ دروازہ باقی رکھا جائے کیونکہ یہ ایک تاریخ ہے، یہ ہمارا ثقافتی ورثہ ہے اور کم ازکم اور کچھ نہیں تو خاندان کے لوگ جب اسے دیکھیں تو ان میں شوق پیدا ہو۔ اگر ہمارے آباء و اجداد نے 120 سے زائد مساجد اور عید گاہیں بنائی ہیں تو ہماری اولادوں کو بھی یہ شوق پیدا ہو۔

سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ والے جب آئے تھے تو انہوں نے کافی بڑا کنٹریکٹ لیا جو میرے علم میں آیا مگر  وہ ٹپ ٹاپ کر کے چھوڑ گئے ۔ پیسوں کا اتنا ضیاع، پیسے تو میرے اور آپ کے ہیں ناں، مسلمانوں کے ہیں ، ہمارے ٹیکسز کے ہیں، سو روپے کا کام ہوگا اور وہ اسے دس ہزار میں کریں گے۔

یہ جو آپ پیچھے دیواریں دیکھ رہے ہیں ان کی تعمیر میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ میرے سے  جب انہوں نے پوچھا کہ ہم اس کی ثقافتی شکل بحال کرنا چاہتے ہیں، باہر والی دیوار اور ان دیواروں کو جو پرانی تعمیر کی تھیں کیونکہ یہ مٹی کی چنائی ہے۔ وہ گارا ، مٹی اور دال وغیرہ  جس طرح پرانے زمانے کی لاہور کے قلعے کی دیواریں ہیں وہ چیزیں انہوں نے بحال کیں۔ اس کے اوپر جو کنگرے دیکھ رہے ہیں وہ پرانی عمارت کے جو نظر آتے ہیں وہ سارے انہوں نے بحال کیے اور کچھ نہیں۔ باقی جو کچھ بھی ہوا وہ میرے اللہ تعالی کی کریمی کے صدقے میں ہم نے خود کیا، باقی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ہیرٹیج میں ان کا کوئی منصوبہ ہے، وہ آتے ہیں ، دیکھتے ہیں ، کچھ کرنا چاہتے ہیں تو کریں۔

ڈسپنسری کا منصوبہ

میں چاہتا ہوں کہ مسجد کے ساتھ کوئی ڈسپنسری بن جائے تاکہ لوگوں کو فائدہ ہو کیونکہ جگہ تو بہت سی خالی ہے، مین روڈ پر بھی ہے۔ مفاد عامہ کے لیے بہت جلد آپ دیکھیں گے کہ کوئی اچھا انتظام ہوگا، یہاں انشا اللہ بہت جلد منشی فتح دین صاحب کے نام پر فی سبیل اللہ ہسپتال بنے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp