شہبازشریف کا مولانا فضل الرحمان کو ٹیلیفون، مدرسہ رجسٹریشن بل پر تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی

جمعہ 6 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سیکرٹری جنرل عبدالغفور حیدری نے موجودہ حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق سوسائٹیز رجسٹریشن (ترمیمی) ایکٹ 2024 کی منظوری نہ ملی تو وہ اسلام آباد کی جانب مارچ کریں گے جبکہ دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:مولانا فضل الرحمان موجودہ مسائل کا حل پیش کریں، ہم ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں، رانا ثنااللہ

جمعہ کو لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے عبدالغفور حیدری نے کہا کہ مدرسوں کی رجسٹریشن بل کی منظوری میں تاخیر پر حکومت کے ’ناپاک عزائم‘ ظاہر ہوتے ہیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جے یو آئی (ف) محاذ آرائی نہیں چاہتی لیکن اگر ان کے مطالبات کو نظر انداز کیا گیا تو وہ اس کے خلاف احتجاجی مارچ کرنے پر مجبور ہوں گے۔

انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ مزید بدامنی کو روکنے کے لیے فوری مدارس رجسٹریشن بل کی منظوری کو یقینی بنائے۔

دریں اثنا وزیراعظم شہباز شریف اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ بھی ہوا ہے۔

مزید پڑھیں:مدارس رجسٹریشن بل پر دستخط سے متعلق حکومت سے بات کروں گا، بلاول کی فضل الرحمان کو یقین دہانی

جے یو آئی (ف) کے ترجمان کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے مدرسوں کی رجسٹریشن بل کے حوالے سے وزیراعظم کو اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اس کے جواب میں وزیراعظم نے بل سے متعلق تمام خدشات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کو ’اتفاق رائے سے پاس کردہ بل‘ کو متنازع معاملے میں تبدیل کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مدارس کی آزادی پر کوئی سمجھوتا نہیں ہونے دیا جائے گا۔

سوسائٹیز رجسٹریشن (ترمیمی) ایکٹ 2024 اکتوبر میں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کیا گیا تھا اور اس کا نفاذ 26 ویں ترمیم کی حمایت میں حکومت اور مذہبی سیاسی جماعت کے مابین معاہدے کا حصہ تھا۔

یہ انتباہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر ملاقات کے 2 روز بعد سامنے آیا ہے جس میں مولانا فضل الرحمان نے صدر مملکت کی جانب سے مدارس کی رجسٹریشن بل پر دستخط نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:مولانا فضل الرحمان نے مدارس بل پر دستخط کے لیے 7 دسمبر کی ڈیڈلائن دے دی

جے یو آئی (ف) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے بل کی منظوری کے باوجود صدر آصف علی زرداری نے اس پر دستخط نہیں کیے۔

اس کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے مولانا کو یقین دلایا تھا کہ وہ مدرسوں کی رجسٹریشن بل پر دستخط کا معاملہ حکومت کے سامنے اٹھائیں گے۔

دریں اثنا جے یو آئی (ف) کے ایک اور رہنما حافظ حمد اللہ نے قانون پر دستخط کرنے میں حکومت کی ہچکچاہٹ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ بل کی منظوری تک پیپلز پارٹی اور بلاول ایک ساتھ تھے۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ بلاول اپنے والد سے بات کریں اور اپنا کردار ادا کریں کیونکہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کی بالادستی سے متعلق ہے، انہوں نے متنبہ کیا کہ بصورت دیگر فضل الرحمان کسی کارروائی پر مجبور ہوں گے۔

مزید پڑھیں:مدارس رجسٹریشن بل پر دستخط نہ ہوسکے، بل اعتراض کے ساتھ واپس ہوگیا

واضح رہے کہ فضل الرحمان نے اس سے قبل کہا تھا کہ اگر حکومت 7 دسمبر تک قانون سازی پر دستخط کرنے میں ناکام رہی تو پارٹی 8 دسمبر کو پشاور میں مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔

مدرسہ رجسٹریشن بل کیا ہے؟

یہ قانون سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ، 1860 کا ایک ترمیم شدہ ورژن ہے، جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مدرسوں (اسلامی مدارس) کو اس کے نفاذ کے ’6 ماہ کے اندر‘ وجود میں لایا جائے۔

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوسائٹی رجسٹریشن (ترمیمی) ایکٹ، 2024 کے آغاز کے بعد قائم ہونے والا دینی مدرسہ اپنے قیام کے ایک سال کے اندر اندر اپنا اندراج کرائے گا۔اس میں کہا گیا ہے کہ ایک سے زیادہ کیمپس والے مدرسے کو صرف ایک رجسٹریشن کی ضرورت ہوگی۔

اس کے بعد ہر مدرسہ اپنی تعلیمی سرگرمیوں کی سالانہ رپورٹ اور آڈٹ رپورٹ رجسٹرار کو پیش کرنے کا پابند ہوگا۔ اس قانون کے تحت دینی مدرسے کی تعریف ایک ایسے مذہبی ادارے کے طور پر کی گئی ہے جو بنیادی طور پر مذہبی تعلیم فراہم کرنے کے مقصد سے قائم یا چلایا جاتا ہے، جو رہائش یا رہائش کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp