دس دسمبر انیس سو اڑتالیس کو اٹھاون رکنی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس منعقدہ پیرس میں انسانی حقوق کا عالمی چارٹر منظور کیا گیا۔ اس کے حق میں پاکستان، بھارت، افغانستان، ایران، ترکی، شام، مصر اور قوم پرست چین سمیت اڑتالیس ووٹ آئے۔ سوویت سوشلسٹ بلاک، جنوبی افریقہ اور سعودی عرب سمیت آٹھ ممالک نے ووٹنگ میں حصہ لینے سے گریز کیا اور دو ممالک ہنڈوراس اور یمن نے اجلاس میں ہی شرکت نہیں کی۔
گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے مطابق آج تک کسی دستاویز کا اتنی زبانوں میں ترجمہ نہیں ہوا جتنا کہ انسانی حقوق چارٹر کا ( پانچ سو ستتر زبانیں )۔آج اقوامِ متحدہ کے رکن تمام ممالک ( ایک سو ترانوے ) انسانی حقوق چارٹر یا اس سے جنم لینے والے کسی نہ کسی کنونشن کے دستخطی ہیں۔اس چارٹر کی منظوری کی تاریخ یعنی دس دسمبر کا دن انیس سو پچاس سے بطور یومِ انسانی حقوق منایا جا رہا ہے۔ اس سال کا تھیم ہے ’ہمارے حقوق ہمارا مستقبل، ابھی اور اسی وقت ‘۔
اگرچہ انسانی حقوق کے عالمی چارٹر پر عمل رضاکارانہ ہے مگر اس چارٹر کے نتیجے میں جنم لینے والے درجِ ذیل معاہدوں اور کنونشنز پر جن ممالک نے دستخط کیے ہیں ان پر عمل لازمی ہے۔ مثلاً شہری و سیاسی حقوق کا کنونشن معاشی، سماجی و ثقافتی حقوق کا کنونشن، نسلی امتیاز کے خاتمے کا کنونشن، صنفی امتیاز نہ برتنے کا کنونشن۔ بچوں کے حقوق کا کنونشن اور ٹارچر کے خلاف کنونشن۔
انسانی حقوق چارٹر تیس شقوں پر مشتمل ہے۔ اس چارٹر سے آگاہ رہنا ہر انسان کا حق اور فرض ہے۔
چارٹر کے مطابق تمام انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں۔ رنگ و نسل و جنس، زبان، مذہب، جائے پیدائش کے اعتبار سے سب برابر ہیں۔ ہر انسان کو محفوظ انداز میں زندہ رہنے کا حق ہے۔کسی انسان کو غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ کسی انسان پر ٹارچر نہیں کیا جا سکتا۔ تمام انسان قانون کی نگاہ میں برابر ہیں۔ ہر انسان کو بنیادی حقوق کی پامالی پر حصولِ انصاف کا حق ہے۔ سرسری و جبری حراست و جبری جلاوطنی سے تحفظ ہر انسان کا حق ہے۔ شفاف مقدمہ چلایا جانا ایک حق ہے۔ جرم ثابت نہ ہونے تک ہر انسان بے گناہ ہے۔
ہر کسی کو نجی زندگی اور ہتکِ عزت سے محفوظ رہنے کا حق ہے۔ اپنی مرضی سے نقل و حرکت کرنے اور اپنی مرضی سے وطن سے جانے اور واپسی کا حق ہے۔ ہر کسی کو جبر سے بچنے کے لیے پناہ لینے کا حق ہے۔ ہر کسی کو شہریت برقرار رکھنے کا حق ہے۔ ہر کسی کو اپنی منشا سے شادی کرنے اور خاندان سازی کا حق ہے۔ ہر کسی کو املاک رکھنے کا حق ہے۔ ہر کسی کو سوچ، ضمیر اور مذہبی عقیدے کی آزادی ہے۔ ہر کسی کو رائے رکھنے اور اس کے اظہار کا حق ہے۔ ہر کسی کو پرامن اجتماع منعقد کرنے یا شرکت کرنے کا حق ہے۔
ہر کسی کو حکومتی امور میں شرکت اور مساوی سرکاری سہولتوں کے حصول کا حق ہے۔ سماجی تحفظ ہر کسی کا حق ہے۔ ہر کسی کو کام، مساوی معاوضے، بیروزگاری سے تحفظ اور مزدور انجمن سازی یا اس میں شمولیت کا حق ہے۔ ہر کسی کو آرام اور تفریح کا حق ہے۔ ہر کسی کو ایک باوقار زندگی کے لیے خوراک، لباس، رہائش، طبی و سماجی سہولتوں تک رسائی کا حق ہے۔ حصولِ تعلیم بنیادی حق ہے۔
ہر کسی کو ثقافت، فن اور سائنس سے فیض یاب ہونے کا حق ہے۔ ایک ایسے سماجی و بین الاقوامی نظام کی تشکیل فرض ہے جس کے تحت اس چارٹر میں دئیے گئے حقوق کا تحفظ ہو سکے۔ ہر شخص کے حقوق اور آزادی کا تحفظ ہم سب کا اجتماعی فرض ہے۔ یہ بنیادی حقوق اور آزادیاں سلب کرنے کا کسی کو حق نہیں۔
اس تناظر میں چھہتر برس بعد بھی ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی گلوبل رپورٹ دو ہزار چوبیس میں شامل ایک سو بیالیس ممالک کے جائزے کے مطابق قانون کی حکمرانی کے لحاظ سے پاکستان ایک سو بیالیس ممالک میں ایک سو انتیسویں درجے پر ہے۔ جنوبی ایشیا میں اس معاملے میں پاکستان سے نیچے صرف افغانستان ہے۔ اگر ہم چاہیں تو یہ سوچ کر ضرور خوش ہو سکتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی کے اعتبار سے ہم سے بھی نیچے افغانستان ہی نہیں بلکہ میانمار، ہیٹی، کمپوچیا اور ونیزویلا بھی ہیں۔
گزشتہ آٹھ برس سے پاکستان سمیت اکیاسی فیصد ممالک میں بنیادی حقوق کے احترام کا معیار مسلسل نیچے جا رہا ہے اور اس تناظر میں سرکار کے اختیارات میں اضافہ ہو رہا ہے۔( دنیا کے چھ ارب انسان ایسی ریاستوں میں ہی رہ رہے ہیں )۔
کرپشن میں گزشتہ برس کے مقابلے میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اس مد میں ایک سو بیالیس ممالک میں پاکستان ایک سو بیسویں درجے پر ہے جبکہ شفاف حکومت کی مد میں اس کا درجہ ایک سو چھٹا، بنیادی حقوق کے تحفظ کی مد میں ایک سو پچیسواں، امن و امان کے تناظر میں ایک سو چالیسواں، قانون کے نفاذ میں ایک سو ستائیسواں، دیوانی انصاف میں ایک سو اٹھائیسواں البتہ فوجداری انصاف میں کچھ بہتر یعنی اٹھانوے واں درجہ ہے۔
سرکردہ تھنک ٹینک فریڈم ہاؤس کے مطابق پاکستان اس وقت شہری آزادیوں کے اعتبار سے ’جزوی آزاد ممالک‘ کی کیٹگری میں شامل ہے جبکہ سویڈن کے شہری و جمہوری حقوق کے مطالعے کے ادارے ورائیٹیز آف ڈیموکریسیز پروجیکٹ کے مطابق پاکستان دو ہزار پندرہ سے ’منتخب آمریت‘ والے ممالک کی کیٹگری میں ہے اور دو ہزار چوبیس کی لبرل ڈیموکریسی انڈیکس میں شامل ایک سو اناسی ممالک میں پاکستان ایک سو انیسویں درجے پر ہے۔
اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی دو ہزار تئیس کی انڈیکس میں پاکستان ’ہائبرڈ رجیم‘ کی کیٹگری میں تھا۔ دو ہزار چوبیس میں یہ ’اتھاریٹیرین رجیم‘ کیٹگری میں شامل ہوگیا۔ جبکہ آزادیِ صحافت کی رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز انڈیکس کے مطابق پاکستان گزشتہ برس ایک سو اسی ممالک کی فہرست میں ایک سو پچاسویں درجے پر تھا۔دو ہزار چوبیس میں یہ مزید کھسک کر ایک سو باونویں درجے پر آ گیا ہے۔
ہم چاہیں تو ان تمام اعداد و شمار کو پاکستان دشمنوں کی سازش کہہ کر مسترد کر سکتے ہیں۔ مگر ہمارے علاوہ باقی عالم کو ہماری یہی تصویر نظر آ رہی ہے۔ اس کا کیا کریں؟