یو اے ای سے 1 ارب ڈالرز وصولی، پاکستان اور آئی ایم ایف معاہدے کے قریب پہنچ گئے

جمعہ 14 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان کو 1 ارب ڈالرز کے اضافی ڈپازٹس کی تصدیق اور چین کی جانب سے 30 کروڑ ڈالرز کی وصولی کے بعد پاکستان اور آئی ایم ایف عملہ کی سطح کے معاہدے پر دستخط کے مزید قریب پہنچ گئے ہیں۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جمعہ کو اپنی ٹوئیٹ میں بتایا ہے کہ متحدہ عرب اماراتی حکام نے آئی ایم ایف کو پاکستان کے لیے ایک ارب امریکی ڈالرز کی دوطرفہ حمایت کی تصدیق کر دی ہے۔

’اسٹیٹ بینک آف پاکستان اب متحدہ عرب امارات کے حکام سے مذکورہ ڈپازٹ کے حصول کے لیے ضروری دستاویزاتی عمل میں مصروف ہے۔‘

آئی ایم ایف کے مینیجنگ ڈائریکٹر نے حال ہی میں کہا ہے کہ پاکستان سری لنکا اور گھانا کی طرح کسی اقتصادی بحران سے دوچار نہیں ہوگا۔ انہوں نے عملے کی سطح کے معاہدے پر جلد دستخط کی امید بھی ظاہر کی ہے۔

اس پس منظر میں اب کراس فیول سبسڈی اسکیم ہی وہ آخری رکاوٹ ہے جس پر عملدرآمد کے لیے حکومت کو آئی ایم ایف کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ اس مرحلے پر یہ یہ اسکیم صرف ایک خیال ہے جس کی صحیح تفصیل پر کام جاری ہے۔

تاہم پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف کے اعلیٰ حکام کے سامنے اعتراف کیا کہ یہ اسکیم کاغذات پر اچھی لگتی ہے لیکن زمینی سطح پر اسے شفاف طریقہ سے نافذ کرنا مشکل ہے۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 31 جنوری سے 9 فروری 2023 تک مذاکرات کے بعد امید ظاہر کی گئی کہ عملہ کی سطح کے معاہدے پر جلد دستخط ہو جائیں گے۔ لیکن دو ماہ گزرنے کے بعد بھی ایسا نہ ہو سکا۔

ان پچھلے دو مہینوں کے دوران، حکومت نے 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ، مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ کی اجازت، 21 فیصد تک اوپر کی طرف پالیسی ریٹ پر نظرثانی، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور پیٹرول اور ڈیزل دونوں پر 50 روپے فی لیٹر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کے نفاذ کے لیے منی بجٹ پیش کرچکی ہے۔

ان تمام سخت اقدامات کے نفاذ کے باعث کنزیومر پرائس انڈیکس کی بنیاد پر مہنگائی کی شرح ماہانہ بنیادوں پر 35.5 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ اسی فارمولہ کے تحت ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگائی کی شرح تقریباً 45 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

اس سلسلہ میں آخری رکاوٹ جون 2023 کے اختتام تک 6 ارب ڈالرز کے بیرونی فائنانسنگ کے خلا کو پُر کرنے کے لیے دو طرفہ دوست ممالک سے تصدیق کی صورت میں درپیش تھی۔

عملہ کی سطح کے معاہدے پر دستخط سے قبل آئی ایم ایف کو 3 ارب ڈالرز فراہم کرنا تھے کیونکہ اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ بقیہ 3 ارب ڈالرز کثیر جہتی قرض دہندگان سمیت چینی بینک اور دیگر بین الاقوامی بینکوں تجارتی قرضوں کے بعد حاصل کیے جائیں گے۔

اب امیدیں روشن ہو گئی ہیں کہ تاخیر کے شکار آئی ایم ایف سے عملہ کی سطح کے معاہدے پر دستخط شاید اگلے ہفتے دستخط ہو جائیں، جس کے بعد توقع ہے کہ آئی ایم ایف بورڈ موجودہ توسیعی فنڈ سہولت کے تحت دسویں قسط کے اجراء کے لیے مئی 2023 میں اپنی منظوری دینے پر غور کرے گا۔

آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کی صورت میں پاکستان کو عمومی معاشی اشاریوں کے محاذ پر اپنا کھویا ہوا اعتماد بحال کرنے میں مدد ملے گی اور شرحِ مبادلہ کو مستحکم کیا جاسکےگا جس کی قدر میں گزشتہ چند ماہ میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی تھی۔

یوں تو آئی ایم ایف پروگرام ڈالر کی عدم دستیابی کو بہتر کرنے میں معاون ثابت ہوگا لیکن حکومت اور اسٹیٹ بینک کو رواں مالی سال کے اختتام تک گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کے لیے مزید ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp