سارہ شریف قتل کیس، والد، سوتیلی والدہ اور چچا مجرم قرار

بدھ 11 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

برطانیہ میں اپنے گھر میں مردہ حالت میں پائی جانے والی 10 سالہ بچی سارہ شریف کے والد اور سوتیلی ماں کو مقدمے کی سماعت مکمل ہونے کے بعد مجرم قرار دے دیا گیا ہے۔

سارہ شریف اگست 2023 میں لندن کے جنوب مغرب میں واقع قصبے ووکنگ میں واقع اپنے گھر میں مردہ حالت میں پائی گئی تھیں، جس کے بارے میں استغاثہ کا کہنا تھا کہ بچی پر بار بار بدترین تشدد کیا جاتا رہا ہے۔ بچی کے قتل کے فوری بعد ان کا خاندان فرار ہو کر پاکستان چلا آیا تھا، جس کے بعد انہیں ستمبر 2023 میں دبئی سے واپس لندن پہنچنے پر گیٹ وک ہوائی اڈے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

پراسیکیوٹر بل ایملن جونز نے مقدمے کی سماعت کے آغاز پر ججوں کو بتایا تھا کہ سارہ شریف کے جسم پر جلنے، ہڈیوں کے ٹوٹنے اور جسم پر کاٹنے کے نشانات سمیت متعدد چوٹیں آئی ہیں۔ سارہ شریف کے والد 43 سالہ عرفان شریف اور ان کی 30 سالہ اہلیہ بینش بتول کے خلاف لندن کی اولڈ بیلی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔

جیوری نے عرفان شریف اور بینش بتول کو سارہ شریف کے قتل کا مجرم قرار دیا ۔ سارہ شریف کے 29 سالہ چچا فیصل ملک کو قتل کا مجرم تو نہیں بلکہ سارہ کی موت کا سبب بننے یا اجازت دینے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔

ایملن جونز نے مقدمے کی سماعت کے آغاز پر جیوری کو بتایا کہ عرفان شریف نے پولیس کو فون کیا تھا اور کہا تھا کہ ‘میرا ارادہ اسے قتل کرنے کا نہیں تھا، لیکن میں نے اسے بہت مارا پیٹا ہے‘۔

عرفان شریف نے ثبوت دیے اور ابتدائی طور پر سارہ شریف کی موت کی ذمہ داری سے انکار کیا تھا۔ اس نے جیوری کو بتایا تھا کہ انہوں نے سارہ شریف کو سمجھانے کے لیے تھپڑ ضرور مارے تھے لیکن انہوں نے اسے باقاعدہ یا ارادتاً قتل نہیں کیا۔

تاہم بینش بتول کی وکیل کیرولین کاربیری کی جانب سے پوچھ گچھ کے بعد عرفان شریف نے اپنی بیٹی کی موت کی ‘مکمل ذمہ داری’ قبول کی ہے۔

بینش بتول کی وکیل، جنہوں نے عدالت میں ثبوت پیش نہیں کیے، نے کہا کہ عرفان شریف کا اپنی بیٹی کے خلاف روّیہ پر تشدد تھا اور وہ اس سے خوفزدہ رہتی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp