شامی عقوبت خانے سے اچانک رہائی پالینے والے شہری کی بے یقینی اور دگرگوں حالت، امریکی خاتون رپورٹر بھی آبدیدہ

جمعرات 12 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

امریکی خبر رساں ادارے سی این این کی رپورٹر کلیریسا وارڈ کو صدر بشار الاسد کی حکومت کی بنائی گئی خفیہ جیلوں کی تلاش کے دوران ایک قیدی ملا جسے نہ تو بشارالاسد کے دور کے خاتمے کی اطلاع تھی اور نہ ہی یہ یقین آیا کہ اب اسے رہا کیا جا رہا ہے۔ کلیریسا سنہ 2012 میں شام میں لاپتا ہوجانے والے امریکی فری لانس صحافی و مرین افسر آسٹن ٹائس کی کھوج میں تھیں جن کو مبینہ طور پر شام کی سابق حکومت کی جانب سے اغوا کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: روس نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بشارالاسد اور ان کے خاندان کو پناہ دے دی

سی این این کی ایک ویڈیو رپورٹ کے مطابق شام کی حکومت کو فارغ کرنے والے باغیوں کے گروپ کے ایک رکن نے امریکی صحافی کو دمشق میں ایک جیل کا دورہ کرایا تاکہ اگر آسٹن ٹائس اگر وہاں ہیں تو انہیں رہا کیا جاسکے۔

’مجھے معاف کردو مجھے معاف کردو‘

گو آسٹن تو ایئر فورس انٹیلیجینس کے اس عقوبت خانے میں نہیں ملے لیکن بغیر کھڑکی والے ایک مقفل سیل کو کھولا گیا تو انہوں نے دیکھا کہ وہاں کمبل اوڑھے کوئی لیٹا ہوا ہے۔ جب کلیریسا کے میزبان جنگجو نے اس شخص کے اوپر سے کمبل ہٹایا تو وہ ایک شامی شہری نکلا اور لگا ایسا کہ ان لوگوں کے قدموں کی چاپ اور باتوں کی آوازیں سن کر اس نے کمبل اوڑھ کر چپ سادھ لی تھی گویا اسے خدشہ ہو کہ آنے والے اسے دیکھ کر کہیں اس پر تشدد نہ شروع کردیں۔

کمبل ہٹتے ہی اس شخص نے بیٹھ کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھادیے اور گڑگڑاتے ہوئے ’معافی معافی‘ کے الفاظ دہرانے لگا جس پر صحافی نے کہا کہ میں ایک سویلین ہوں۔ اس پر وہ شخص کھڑا ہوکر عربی میں اپنی صفائی میں مزید کچھ کہنے لگا۔ اپنے چہرے پر خوف کے گہرے سائے لیے وہ شخص کپکپا رہا تھا اور اپنی نحیف آواز میں یہ اپنی بیگناہی پیش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

فوج کا خوف اور صحافی کا سہارا

اس دوران امریکی صحافی نے حوصلہ دینے کے لیے ’سب ٹھیک ہے‘ کہتے ہوئے اسے ہاتھ سے چھوا تو اس نے بھی صحافی کا بازو سختی سے پکڑ لیا گویا وہ سامنے کھڑے فوجی لباس میں ملبوس شخص سے ڈر کلیریسا کی پناہ میں آنا چاہتا ہو۔ ایک انجانے خطرے کے باعث اس کے خوف کا عالم یہ تھا کہ وہ بری طرح ہانپ رہا تھا اور بار بار صحافی کی اوٹ میں چھپنے کی کوشش کر رہا تھا۔

’مدتوں‘ کی پیاس اور پانی کی بوتل

اسی اثنا میں باغی فوج کے رکن نے اس قیدی کے ماتھے پر بوسا دیا جس پر اس کا خوف معمولی سا کم ہوا۔ صحافی نے اسے پانی کی بوتل دی اور اس نے اسے اس طرح پیا جیسے بہت عرصے سے پیاسا ہو اور جلدی نہ کی تو اس سے وہ چھین لی جائے گی کیوں کہ وہ وہاں کئی دنوں سے بھوکا پیاسا تھا۔

مزید پڑھیے: بشارالاسد مخالف قیدی اپنے پالتو شیروں کو کھلانے والے سفاک فوجی کو سرعام پھانسی دیدی گئی

کلیریسا اپنے میزبان کی مدد سے اس قیدی کو سہارا دیتے ہوئے سیل کے باہر لے کر آئیں۔ چلتے ہوئے کلیریسا نے قیدی سے کہا کہ گھبراؤ مت اب تم آزاد ہو لیکن لگتا تھا کہ قیدی کو یقین نہیں آرہا تھا اور اس کے جسم کی تھرتھراہٹ تھی کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ شاید اب اسے کسی پہلے سے بھی خطرناک جگہ منتقل کیا جا رہا ہے۔ اس نے خوف کے مارے تھرتھراتے ہوئے بتایا کہ اس کا تعلق شہر حمص سے ہے اور وہ اس سیل میں 3 ماہ سے قید ہے اور یہ تیسرا قید خانہ ہے جہاں اسے لایا گیا ہے۔

’یا اللہ یہ تو روشنی ہے‘

مذکورہ سیل میں کوئی کھڑکی نہیں تھی۔ سیل سے باہر آنگن میں آکر اس نے بے ساختہ گردن اٹھا کر اوپر دیکھا کیوں کہ وہ ایک طویل مدت کے بعد آسمان دیکھ رہا تھا۔ آسمان دیکھتے ہی اس کے منہ سے ’اللہ اکبر‘ کی صدائیں بلند ہوئیں اور اس نے کئی مرتبہ یہ جملہ دہرایا کہ ’یا اللہ یہ تو روشنی ہے‘۔ اب اس کے چہرے پر خوشی و اطمینان کی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔

قیدی کو ایک طرف سے تھامے آگے بڑھتی ہوئی امریکی صحافی کی آنکھیں بھی ڈبڈبائی ہوئی تھیں۔ قیدی نے اظہار تشکر کے طور پر پہلے کلیریسا اور پھر دوسری جانب چلتے ہوئے جنگجو کے کندھے کو بوسا دیا۔

’تم یہیں رہنا‘، قیدی کی رپورٹر سے التجا

پھر قیدی کو لاکر ایک کرسی پر بٹھایا گیا لیکن وہ اب بھی ایک سویلین (کلیریسا) کا ہاتھ چھوڑنے پر تیار نہیں تھا اور اس سے کہہ رہا تھا کہ یہیں میرے ساتھ کھڑی رہو۔

قیدی نے روتے ہوئے بتایا کہ جب سے وہ قید میں ہے اسے اپنے اہل خانہ اور بچوں کی کچھ خبر نہیں ہے۔

جنگجو نے اسے پلاسٹک کے ایک باکس میں کھانے کو چاول گوشت دیا لیکن اس سے کھایا نہیں جارہا تھا اس لیے وہ بڑی مشکل سے لرزتے ہاتھوں سے چمچ سے صرف ایک لقمہ ہی لے سکا جس پر اس کی حالت غیر ہونے لگی۔ شام پر باغیوں کے حملے کے بعد اس جیل کے رکھوالے اسے وہیں چھوڑ کر فرار ہوگئے تھے اور وہ کم ازکم 4 دنوں سے بھوکا پیاسا تھا۔

’کیا تم سیریس ہو‘

جنگجو نے اس سے کہا کہ پریشان مت ہو اب نہ ہی کوئی فوج ہے اور نہ کوئی چیک پوسٹ اور قید خانہ ہے۔ اس پر بشارالاسد کی بدخلی سے بے خبر قیدی نے دریافت کیا کہ ’کیا تم یہ سب سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہے ہو‘۔ جنگجو نے اس سے کہا کہ ہاں اب شام آزاد ہے۔ وہ الفاظ سن کر اس کے چہرے پر پہلی مرتبہ اطمینان دکھائی دیا اور اس نے فرط جذبات سے جنگجو کا ماتھا چوم لیا۔

مزید پڑھیں: شام میں اسد خاندان کاطویل دور حکمرانی ختم، دمشق کی سڑکوں پر جشن

اس نے بتایا کہ اس کا نام عادل ہے اور انٹیلیجینس والے اسے اس کے گھر سے اٹھا کر لے گئے تھے۔ اس نے بتایا کہ وہ اس کے فون کے حوالے سے پوچھ گچھ کر رہے تھے اور کچھ افراد (دہشتگرد) کے نام لے کر ان کے بارے میں دریافت کر رہے تھے۔ جنگجو نے اس سے پوچھا کہ کیا ان لوگوں نے تم پر تشدد کیا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

پھر وہاں پر ہلال احمر کی طبی ٹیم پہنچ گئی اور اسے کچھ فرسٹ ایڈ دی جس کے بعد عادل پر تشنج کی جو کیفیت تھی وہ قدرے کم ہو گئی۔ اس کے بعد عادل کو قیدخانے سے باہر لاکر ایک ایمبولینس میں بٹھا کر روانہ کردیا گیا۔ بیٹھتے ہوئے عادل نے روتے ہوئے ایک جملہ کہا کہ اب تک (دوران قید) مجھے جتنی گاڑیوں میں بٹھایا جاتا رہا میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوا کرتی تھی۔

رپورٹ کے آخر میں کلیریسا وارڈ کا کہنا تھا کہ شام میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جو سابقہ حکومت کے قیدخانوں میں جاکر گم ہوگئے اور عادل بھی ان میں سے ایک تھا جو اب آزاد ہے لیکن اتنا عرصہ خوف کی زندگی گزارنے کے باعث اب تک پتھر کے ایک بت جیسا دکھائی دیتا ہے۔ عادل اور اس جیسے لوگوں کے لیے ایک تاریک باب کا خاتمہ ہوا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp