پناہ کی ناکام تلاش میں سرگرداں فلسطینیوں کو حسب ضرورت انسانی امداد بھی میسر نہیں ہے۔ فضائی بمباری اور زمینی حملوں میں جانی نقصان بڑھتا جا رہا ہے اور پورا علاقہ ملبے کا ڈھیر دکھائی دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی لوٹ مار، اقوام متحدہ نے غزہ متاثرین کے لیے خوراک اور امدادی سامان کی فراہمی روک دی
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کی اعلیٰ عہدیدار لوسی ویٹریج نے وسطی غزہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ حالیہ حملے کے بعد والدین اپنے بچوں کو ڈھونڈتے دکھائی دیے جبکہ گرد اور خون میں لت پت بچوں کی نگاہیں اپنے ماں باپ کو تلاش کر رہی تھیں۔
یہ حملہ ایسے وقت ہوا ہےجب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کر کے غزہ میں فوری، غیرمشروط اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔
26 ہزار جسمانی معذور
لوسی ویٹریج نے بتایا ہے کہ غزہ کے اسپتالوں پر بیمار لوگوں اور زخمیوں کا بھاری بوجھ ہے جبکہ ضروری طبی سازوسامان جیسا کہ انسولین، سرنجوں اور سرطان کی ادویات کی قلت نے حالات کو اور بھی گھمبیر بنا دیا ہے۔
اس صورتحال میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ اس وقت دنیا میں فی کس جسمانی معذور بچوں کی سب سے بڑی تعداد غزہ میں ہے۔ ان میں بیشتر کے جسمانی اعضا قطع ہو چکے ہیں۔ عام طور پر ایسے زخمی بچوں کو بے ہوش کیے بغیر ان کے آپریشن کرنا پڑتے ہیں کیونکہ اسپتالوں میں اس مقصد کے لیے درکار سامان وجود نہیں رکھتا۔
انروا کے مطابق غزہ میں 26 ہزار لوگ شدید زخمی ہونے کے باعث مستقل جسمانی معذوری کا شکار ہو گئے ہیں۔ ادارے نے 14 ماہ سے جاری اس جنگ میں لوگوں کو اب تک 67 لاکھ طبی مشورے دیے ہیں۔
قحط کا خطرہ
غزہ میں غذائی عدم تحفظ کے باعث خاص طور پر شمالی علاقوں میں قحط پھیلنے کا خطرہ ہے۔ انروا کے مطابق بیشتر آبادی روٹی، دالوں اور ڈبہ بند خوراک پر گزارا کر رہی ہے۔
اس عرصے میں لوگوں کو پھل اور سبزیاں میسر نہیں رہیں۔ گزشتہ 4 مہینوں میں 19 ہزار بچوں کو غذائی قلت سے لاحق ہونے والے مسائل کی وجہ سے اسپتالوں میں داخل کرنا پڑا ہے۔
مزید پڑھیے: پوپ فرانسس کا غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دیتے ہوئے دنیا سے تحقیقات کا مطالبہ
جمعرات کو ایک امدادی قافلے پر حملے میں اس کے متعدد محافظ ہلاک ہو گئے۔ خوراک، صحت و صفائی کا سامان اور خیمے لے جانے والے اس قافلے میں شامل 70 ٹرکوں میں صرف ایک ہی اپنی منزل تک پہنچ سکا۔
نظم و نسق نہ ہونے، لوٹ مار اور تحفظ کے دیگر مسائل کے باعث امدادی قافلوں کے لیے مطلوبہ مقامات تک سفر کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
محاصرہ اور تباہی
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا ہے کہ 6 اکتوبر سے اب تک اقوام متحدہ اور اس کے شراکتی اداروں نے شمالی غزہ میں امداد پہنچانے کے لیے 137 درخواستیں دیں جن میں سے 124 مسترد ہو گئیں۔ 13 امدادی مشن اجازت لینے میں کامیاب رہے لیکن انہیں راستے میں شدید مشکلات کا سامنا رہا۔
رواں ہفتے امداد پہنچانے کے لیے اسرائیلی حکام کو 16 درخواستیں دی گئیں جن میں بیشتر مسترد ہو گئیں۔ اجازت حاصل کرنے والی ایک مشن کو بھی بعدازاں شمالی غزہ میں جانے سے روک دیا گیا۔
مزید پڑھیں: غزہ میں لاکھوں بچے جہنم جیسی زندگی گزارنے پر مجبور
اوچا نے کا کہنا ہے کہ غزہ بھر اور بالخصوص شمالی علاقے میں انسانی امداد پہنچانے کے لیے نقل و حرکت کی آزادی ضروری ہے جہاں ہزاروں فلسطینی گزشتہ 10 ہفتوں سے تباہ کن حالات میں زیرمحاصرہ ہیں۔